لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جو وہ کھاچکے، جب کہ وہ متقی بنے اور ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، پھر وہ متقی بنے اور ایمان لائے، پھر وہ متقی بنے اور انھوں نے نیکی کی اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
جب شراب کی تحریم، ممانعت کی تاکید اور اس کی بابت سخت حکم نازل ہوا، تو بہت سے اہل ایمان کی خواہش تھی کہ انہیں اپنے ان مومن بھائیوں کے بارے میں معلوم ہو جو حالت اسلام میں فوت ہوئے اور شراب کی تحریم سے قبل وہ شراب پیا کرتے تھے، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ﴾ ” جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں۔“ یعنی ان پر گناہ اور حرج نہیں ہے ﴿فِيمَا طَعِمُوا ﴾ ” اس میں جو کچھ پہلے کھاچکے“ یعنی شراب اور جوئے کی تحریم سے قبل وہ شراب پیا کرتے تھے۔ چونکہ نفی حرج مذکورہ اشیا وغیرہ کو شامل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کو مقید فرمایا ﴿إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” جب کہ وہ آئندہ کو ڈر گئے اور ایمان لائے اور نیک عمل کئے“ یعنی اس شرط کے ساتھ کہ وہ گناہوں کو ترک کریں اللہ تعالیٰ پر ایسا صحیح ایمان رکھیں جو عمل صالح کا موجب ہوتا ہے۔ پھر اس پر ہمیشہ قائم رہیں۔۔۔ ورنہ بندہ کبھی اس صفت سے متصف ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔ یہ ایمان اس وقت تک کافی نہیں جب تک کہ اس پر دوام نہ ہو اور اسی حالت میں اس کو موت نہ آئے۔ نیز نیک اعمال پر اس کا دوام ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اچھے طریقے سے اپنے خلاق کی عبادت کرنے والے نیکو کاروں کو پسند کرتا ہے اور وہ بندوں کو نفع پہنچانے کو پسند کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں وہ شخص بھی شامل ہے جو تحریم کے نازل ہونے کے بعد کوئی حرام کردہ چیز کھاتا ہے یا کسی حرام فعل کا ارتکاب کرتا ہے، پھر اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے تو بہ کرلیتا، تقویٰ اختیار کرلیتا ہے اور نیک کام کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا اور اس بارے میں اس کے گناہ کا بوجھ ہٹا دے گا۔