وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ
اور اللہ نے تمھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے حلال، طیب کھاؤ اور اس اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھنے والے ہو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کے طریقے کے برعکس جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرایا، حکم دیا﴿وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلَالًا﴾ ” اور جو حلال طیب روزی اللہ نے تمہیں دی ہے اسے کھاؤ۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے اس رزق میں سے کھاؤ جو اللہ تعالیٰ نے ان اسباب کے ذریعے سے تمہاری طرف بھیجا ہے جو تمہیں میسر ہیں۔ بشرطیکہ یہ رزق حلال ہو اور چوری یا غصب شدہ وغیرہ مال میں سے نہ ہو جو ناحق حاصل کیا گیا ہوتا ہے، نیزہ وہ پاک بھی ہو یعنی اس میں کوئی ناپاکی نہ ہو۔ اس طرح درندے اور دیگر ناپاک چیزیں اس دائرے سے نکل جاتی ہیں۔ ﴿وَاتَّقُوا اللَّـهَ﴾ ” اور اللہ سے ڈرتے رہو۔“ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور اس کی منہیات کے اجتناب میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ﴾ ” وہ اللہ جس پر تم ایمان رکھتے ہو“ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان تم پر تقویٰ اور حقوق اللہ کی رعایت و حفاظت واجب کرتا ہے کیونکہ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حلال چیز مثلاً ماکولات، مشروبات یا لونڈی وغیرہ کو حرام ٹھہرا لیتا ہے تو یہ چیز اس کے حرام ٹھہرا لینے سے حرام نہیں ہوجاتی۔ البتہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو قسم کا کفارہ واجب ہوجائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ﴾ (التحریم :66؍1) ” اے نبی ! آپ اس چیز کو کیوں حرام ٹھہراتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لئے حلال قرار دی ہے؟“ مگر بیوی کو اپنے آپ پر حرام ٹھہرانے سے ظہار کا کفارہ لازم آئے گا۔ [اس مسئلے میں کافی اختلاف ہے، ایک رائے یہ بھی ہے جس کا اظہا رفاضل مفسر رحمتہ اللہ علیہ نے کیا ہے، دوسری رائے یہ ہے کہ اس میں کفارہ یمین ہے (اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے، واللہ اعلم) اور تیسری رائے ہے کہ اس میں سرے سے کوئی کفارہ ہی نہیں ہے۔ امام ابن قیم اور امام ابن کثیر کا رجحان دوسری رائے کی طرف اور امام شوکانی کا تیسری رائے کی طرف ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیے تفسیر فتح القدیر، آیت زیر بحث زاد المعاد، ج :5؍ 302۔312، فتح الباری، کتاب الطلاق، والروضۃ الندیہ، ج : 2، کتاب الطلاق وغیر ھامن الکتب (ص۔ ی) ] اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ پاک چیزوں سے اجتناب کرے اور انہیں اپنے آپ پر حرام ٹھہرا لے بلکہ وہ انہیں استعمال کرے اور اس طرح اطاعت الٰہی پر ان سے مدد لے۔