لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
انھیں رب والے لوگ اور علماء ان کے جھوٹ کہنے اور ان کے حرام کھانے سے کیوں نہیں روکتے؟ یقیناً برا ہے جو وہ کیا کرتے تھے۔
﴿ لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ﴾ ” کیوں نہیں روکتے ان کو درویش اور علماء گناہ کی بات کہنے سے اور حرام کھانے سے“ یعنی علماء جو عوام الناس کے نفع کے در پے ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے علم و دانش سے نوازا ہے، انہوں نے لوگوں کو ان گناہوں سے کیوں نہ روکا جو ان سے صادر ہوتے ہیں تاکہ ان سے جہالت دور ہوجاتی اور ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوجاتی ۔ کیونکہ یہ علماء ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے منع کریں اور ان کے سامنے دین کا راستہ واضح کریں، انہیں بھلائیوں کی ترغیب دیں اور برائیوں کے انجام سے ڈرائیں ﴿ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ﴾ ” بلا شبہ وہ بہت برا کرتے ہیں۔ “