وَتَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور تو ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھے گا کہ وہ گناہ اور زیادتی اور اپنی حرام خوری میں دوڑ کر جاتے ہیں۔ یقیناً برا ہے جو وہ عمل کرتے تھے۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی مدد اور تائید کی خاطر بتکرار ان یہود و کفار کے معایب بیان کرتا ہے۔ ﴿وَتَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ﴾ ”اور تو ان میں سے اکثر کو دیکھے گا“ یعنی یہودیوں میں سے ﴿يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾” وہ گناہ اور زیادتی میں دوڑ کر حصہ لیتے ہیں“ یعنی وہ ان گناہوں کی طرف سبقت کرتے ہیں جو خالق کے حقوق سے متعلق ہیں اور مخلوق پر ظلم اور تعدی کے زمرے میں آتے ہیں ﴿وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ﴾ ” اور ان کے حرام کھانے پر“ جو کہ حرام ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے صرف یہ خبر دینے پر اکتفا نہیں کیا کہ وہ ان افعال کا ارتکاب کرتے ہیں بلکہ یہ بھی خبر دی کہ وہ ان افعال بد میں سبقت کرتے ہیں اور یہ چیز ان کی خباثت اور برائی پر دلالت کرتی ہے۔ گناہ اور ظلم ان کے نفس کی فطرت کا حصہ بن گئے۔ یہ ہے ان کا حال اور وہ ہیں کہ اپنے لئے مقامات بلند کا دعویٰ کرتے ہیں ﴿لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” بہت برے کام ہیں جو وہ کر رہے ہیں“ یہ ان کی مذمت اور ان کی تشنیع کی انتہا ہے۔