فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ
پس تو ان لوگوں کو دیکھے گا جن کے دلوں میں ایک بیماری ہے کہ وہ دوڑ کر ان میں جاتے ہیں، کہتے ہیں ہم ڈرتے ہیں کہ ہمیں کوئی چکر آ پہنچے، تو قریب ہے کہ اللہ فتح لے آئے، یا اپنے پاس سے کوئی اور معاملہ تو وہ اس پر جو انھوں نے اپنے دلوں میں چھپایا تھا، پشیمان ہوجائیں۔
جب اللہ تبار کو تعالیٰ نے اہل ایمان کو اہل کتاب سے دوستی رکھنے سے منع کیا تو آگاہ فرمایا کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والوں میں سے ایک گروہ ان کے ساتھ دوستی رکھتا ہے۔ ﴿فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ﴾” پس آپ ان لوگوں کو دیکھیں گے جن کے دلوں میں روگ ہے“ یعنی ان کے دلوں میں شک، نفاق اور ضعف ایمان ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم نے ضرورت کے تحت ان کو دوست بنایا ہے اس لئے کہ ﴿ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ﴾” ہم ڈرتے ہیں کہ ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے“ یعنی ہمیں ڈر ہے کہ کہیں گردش ایام یہود و نصاریٰ کے حق میں نہ ہوجائے اور اگر زمانے کی گردش ان کے حق میں ہو تو ہمارا ان پر احسان انہیں اس بدلے میں ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر آمادہ کرے گا یہ اسلام کے بارے میں ان کی انتہائی بدظنی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی بدظنی کا رد کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿فَعَسَى اللّٰهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ ﴾” ہوسکتا ہے اللہ فتح کرے“ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ پر غالب کر دے ﴿أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ﴾ ” یا کوئی حکم اپنے پاس سے“ جس سے منافقین، یہود وغیرہ کفار کے کامیاب ہونے سے مایوس ہوجائیں۔ ﴿فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا ﴾ ” پس ہوجائیں وہ اس پر جو کچھ وہ چھپاتے ہیں“ ﴿ فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ﴾ ” اپنے نفسوں میں نادم“ یعنی اس رویے پر جس کا اظہار ان کی طرف سے ہوا اور جس نے انہیں نقصان پہنچایا اور کوئی نفع انہیں حاصل نہ ہوا۔ پس مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کو نصرت سے نوازا اور کفر اور کفار کو ذلیل کیا۔ پس ان کو ندامت اٹھانی پڑی اور انہیں ایسے غم کا سامنا کرنا پڑا جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔