سورة المآئدہ - آیت 49

وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور یہ کہ ان کے درمیان اس کے ساتھ فیصلہ کر جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کر اور ان سے بچ کہ وہ تجھے کسی ایسے حکم سے بہکا دیں جو اللہ نے تیری طرف نازل کیا ہے، پھر اگر وہ پھر جائیں تو جان لے کہ اللہ یہی چاہتا ہے کہ انھیں ان کے کچھ گناہوں کی سزا پہنچائے اور بے شک بہت سے لوگ یقیناً نافرمان ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ﴾ ” اور ان کے درمیان اس کے موافق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے اتارا“ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ آیت کریمہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ﴾ ” ان کے درمیان فصلہ کریں یا اس سے روگردانی کریں“ کو منسوخ کرتی ہے۔ صحیح رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ اس مذکورہ آیت کو منسوخ نہیں کرتی، پہلی آیت دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے درمیان فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ حق کی خاطر فیصلہ کروانے کا قصد نہیں رکھتے تھے اور یہ (دوسری) آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان فیصلہ کریں، تو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت، یعنی قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہی وہ انصاف ہے جس کے بارے میں گزشتہ صفحات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ﴾” اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔ “ یہ آیت کریمہ عدل کی توضیح و تبیین پر دلالت کرتی ہے، نیز یہ کہ عدل کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے احکام ہیں جو انتہائی عدل و انصاف پر مبنی اصولوں پر مشتمل ہیں اور جو کچھ ان احکام کے خلاف ہے، وہ سراسر ظلم و جور ہے۔﴿وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ﴾” اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں“ شدت تحذیر کی خاطر اللہ تعالیٰ نے بتکرار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی خواہشات کی پیروی کرنے سے روکا ہے۔ نیز وہ آیت حکم اور فتویٰ کے مقام پر ہے اور اس میں زیادہ وسعت ہے اور یہ صرف حکم کے مقام پر ہے۔ دونوں آیات کا مفاد یہ ہے کہ ضروری ہے کہ ان کی خلاف حق خواہشات کی پیروی نہ کی جائے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّٰهُ إِلَيْكَ﴾” اور بچتے رہیں ان سے، اس بات سے کہ وہ کہیں آپ کو بہکانہ دیں کسی ایسے حکم سے جو اللہ نے آپ کی طرف اتارا“ یعنی ان کی فریب کاریوں سے بچیے نیز ان سے بچیے کہ وہ آپ کو فتنے میں ڈال کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی ایسی چیز سے نہ روک دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف نازل فرمائی ہے۔ پس ان کی خواہشات کی پیروی، حق واجب کو ترک کرنے کا باعث بنتی ہے جبکہ اتباع حق فرض ہے۔ ﴿فَإِن تَوَلَّوْا﴾ ” پس اگر وہ نہ مانیں“ یعنی اگر وہ آپ کی اتباع اور حق کی پیروی سے روگردانی کریں ﴿ فَاعْلَمْ﴾ ” تو جان لیجیے“ کہ یہ روگردانی ان کے لئے سزا ہے ﴿أَنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ﴾” اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کو ان کے گناہوں کے سبب کوئی سزا پہنچائے“ کیونکہ گناہوں کے لئے دنیا و آخرت میں سزائیں مقرر ہیں اور سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو آزمائش میں مبتلا کر دے اور اتباع رسول کے ترک کو اس کے لئے مزین کر دے اور اس کا باعث اس کا فسق ہوتا ہے ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ﴾ ”اور اکثر لوگ نافرمان ہیں“ یعنی ان کی فطرت اور طبیعت میں فسق، نیز اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع سے خروج ہے۔