وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
اور ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ بھیجی، اس حال میں کہ اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو کتابوں میں سے اس سے پہلے ہے اور اس پر محافظ ہے۔ پس ان کے درمیان اس کے ساتھ فیصلہ کر جو اللہ نے نازل کیا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کر، اس سے ہٹ کر جو حق میں سے تیرے پاس آیا ہے۔ تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک راستہ اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمھیں ایک امت بنا دیتا اور لیکن تاکہ وہ تمھیں اس میں آزمائے جو اس نے تمھیں دیا ہے۔ پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم سب کا لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمھیں بتائے گا جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ﴾ ” اور اتاری ہم نے آپ کی طرف کتاب“ یعنی قرآن عظیم جو سب سے افضل اور جلیل ترین کتاب ہے ﴿بِالْحَقِّ﴾ ” حق کے ساتھ“ یعنی ہم نے اسے حق کے ساتھ نازل کیا ہے یہ کتاب اپنی اخبار اور اوامرونواہی میں حق پر مشتمل ہے ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ ﴾ ” اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے“ کیونکہ یہ کتب سابقہ کی صداقت کی گواہی دیتی ہے، ان کی موافقت کرتی ہے، اس کی خبریں ان کی خبروں کے مطابق اور اس کے بڑے بڑے قوانین ان کے بڑے بڑے قوانین کے مطابق ہیں۔ ان کتابوں نے اس کتاب کے بارے میں خبر دی ہے۔ پس اس کا وجود ان کتب سابقہ کی خبر کا مصداق ہے ﴿وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ﴾” اور ان کے مضامین پر نگہبان ہے“ یعنی یہ کتاب ان امور پر مشتمل ہے جن امور پر سابقہ کتب مشتمل تھیں، نیز مطالب الٰہیہ اور اخلاق نفسیہ میں بعض اضافے ہیں۔ یہ کتاب ہر اس حق بات کی پیروی کرتی ہے جو ان کتابوں میں آچکی ہے اور اس کی پیروی کا حکم اور اس کی ترغیب دیتی ہے اور حق تک پہنچانے کے بہت سے راستوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں حکمت، دانائی اور احکام ہیں، جس پر کتب سابقہ کو پیش کیا جاتا ہے، لہٰذا جس کی صداقت کی یہ گواہی دے وہ مقبول ہے جس کو یہ رد کر دے وہ مردد ہے، کیونکہ وہ تحریف اور تبدیلی کا شکار ہوچکی ہے۔ ورنہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ہوتی تو یہ اس کی مخالفت نہ کرتی۔﴿ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ﴾” پس ان کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جو اللہ نے اتارا“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو حکم شرعی نازل فرمایا ہے اس کے مطابق فصلہ کیجیے﴿وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ﴾” اور آپ کے پاس جو حق آیا، اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں“ یعنی ان کی حق کے خلاف خواہشات فاسدہ کی اتباع کو اس حق کا بدل نہ بنائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آچکا ہے، ورنہ آپ اعلیٰ کے بدلے ادنی ٰ کو لیں گے۔ ﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ﴾ ” تم میں سے ہر ایک کو دیا ہم نے“ یعنی اے قومو !﴿شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا﴾ ” ایک دستور اور راہ“ یعنی تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک راستہ اور طریقہ مقرر کردیا ہے۔ یہ شریعتیں جو امتوں کے اختلاف کے ساتھ بدل جاتی رہی ہیں، زمان و مکان اور احوال کے تغیر و تبدل کے مطابق ان شرائع میں تغیر و تبدل واقع ہوتا رہا ہے اور ہر شریعت اپنے نفاذ کے وقت عدل کی طرف راجع رہی ہے۔ مگر بڑے بڑے اصول جو ہر زماں و مکاں میں مصلحت اور حکمت پر مبنی ہوتے ہیں کبھی نہیں بدلتے، وہ تمام شرائع میں مشروع ہوتے ہیں۔ ﴿وَلَوْ شَاءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً﴾ ” اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت بنا دیتا“ یعنی ایک شریعت کی پیروی میں ایک امت بنا دیتا کسی متقدم اور متاخرامت میں کوئی اختلاف نہ ہوتا ﴿وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ﴾ ” لیکن وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے اپنے دیئے ہوئے حکموں میں“ پس وہ تمہیں آزمائے اور دیکھے کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہر قوم کو آزماتا ہے اور ہر قوم کو اس کے احوال اور شان کے لائق عطا کرتا ہے، تاکہ قوموں کے درمیان مقابلہ رہے۔ پس ہر قوم دوسری قوم سے آگے بڑھنے کی خواہشمند ہوتی ہے اس لئے فرمایا : ﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ﴾ ” نیک کاموں میں جلدی کرو۔“ یعنی نیکیوں کے حصول کے لئے جلدی سے آگے بڑھو اور ان کی تکمیل کرو، کیونکہ وہ نیکیاں جو فرائض و مستحبات، حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہوتی ہیں، ان کا فاعل اور ان دو امور کو مدنظر کھے بغیر کسی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ (١) جب نیکی کرنے کا وقت آجائے اور اس کا سبب ظاہر ہوجائے تو فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے جلدی سے اس کی طرف بڑھنا۔ (٢) اور حکم کے مطابق اسے کامل طور پر ادا کرنے کی کوشش کرنا۔ اس آیت کریمہ سے اس امر پر استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز کو اول وقت پڑھنے کی کوشش کی جائے، نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بندے کو صرف نماز وغیرہ اور دیگر امور واجبہ کی ادائیگی پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ مقدور بھر مستحبات پر بھی عمل کرے، تاکہ واجبات کی تکمیل ہو اور ان کے ذریعے سے سبقت حاصل ہو۔ ﴿إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا﴾” تم سب کا لوٹنا اللہ کی کی طرف ہے“ تمام امم سابقہ ولاحقہ کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ایک ایسے روز اکٹھا کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں ﴿فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴾ ’’پس وہ تمہیں ان امور کی بابت خبر دے گا جن میں تم آپس میں اختلاف کرتے تھے“ یعنی جن شرائع اور اعمال کے بارے میں تمہارے درمیان اختلاف تھا۔ چنانچہ وہ اہل حق اور نیک عمل کرنے والوں کو ثواب سے نوازے گا اور اہل باطل اور بدکاروں کو سزا دے گا۔