إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ
بے شک ہم نے تورات اتاری، جس میں ہدایت اور روشنی تھی، اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے انبیاء جو فرماں بردار تھے، ان لوگوں کے لیے جو یہودی بنے اور رب والے اور علماء، اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر گواہ تھے۔ تو تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہ لو اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔
﴿إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ ﴾ ”بے شک ہم نے تورات نازل فرمائی۔“ یعنی ہم نے موسیٰ بن عمران پر تورات نازل کی ﴿فِيهَا هُدًى ﴾ ” جس میں ہدایت ہے“ یعنی تورات ایمان اور حق کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور گمراہی سے بچاتی ہے﴿وَنُورٌ ﴾ ” اور روشنی ہے۔“ یعنی ظلم و جہالت، شک و حیرت اور شبہات و شہوات کی تاریکیوں میں اس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاءً وَذِكْرًا لِّلْمُتَّقِينَ ﴾ (الانبیاء: 21؍48) ” اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو حق و باطل میں فرق کرنے والی، روشنی عطا کرنے والی اور اہل تقویٰ کو نصیحت کرنے والی کتاب عطا کی۔“ ﴿يَحْكُمُ بِهَا ﴾ ” فیصلہ کرتے تھے اس کے ساتھ“ یعنی یہودیوں کے جھگڑوں اور ان کے فتاویٰ میں ﴿النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا ﴾ ” پیغمبر جو فرماں بردار تھے“ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کیا، اس کے احکامات کی اطاعت کی اور ان کا اسلام دیگر لوگوں کے اسلام سے زیادہ عظیم تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندے تھے۔ جب یہ انبیائے کرام جو مخلوق کے سردار ہیں، تو رات کو اپنا امام بناتے ہیں، اس کی پیروی کرتے ہیں اور اس کے پیچھے چلتے ہیں تو یہودیوں کے ان رذیل لوگوں کو اس کی پیروی کرنے سے کس چیز نے روکا ہے؟ اور ان پر کس چیز نے واجب کیا ہے کہ وہ تورات کے بہترین حصے کو نظر انداز کردیں جس میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا حکم ہے اور عقیدے کو قبول کئے بغیر کوئی ظاہری اور باطنی عمل قابل قبول نہیں۔ کیا اس بارے میں ان کے پاس کوئی راہنمائی ہے؟ ہاں ! ان کی راہنمائی کرنے والے راہنما موجود ہیں جو تحریف کرنے، لوگوں کے درمیان اپنی سرداری اور مناصب قائم رکھنے، کتمان حق کے ذریعے سے حرام مال کھانے اور اظہار باطل کے عادی ہیں۔ یہ لوگ ائمہ ضلالت ہیں جو جہنم کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ ﴿وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ ﴾ ” درویش اور عالم“ یعنی اسی طرح یہودیوں کے ائمہ دین میں ربانی تورات کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے۔ (رَّبَّانِيُّونَ) سے مراد باعمل علماء ہیں جو لوگوں کی بہترین تربیت کرتے تھے اور لوگوں کے ساتھ ان کا وہی مشفقانہ رویہ تھا جو انبیائے کرام کا ہوتا ہے (أَحْبَار) سے مراد وہ علمائے کبار ہیں جن کے قول کی اتباع کی جاتی ہے اور جن کے آثار کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور وہ اپنی قوم میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی طرف سے صادر ہونے والا یہ فیصلہ حق کے مطابق ہے ﴿بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّـهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ﴾ ” اس واسطے کہ وہ نگہبان ٹھہرائے گئے تھے اللہ کی کتاب پر اور وہ اس کی خبر گیری پر مقرر تھے“ یعنی اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری ڈالی تھی، ان کو اپنی کتاب کا امین بنایا تھا اور یہ کتاب ان کے پاس امانت تھی اور اس میں کمی بیشی اور کتمان سے اس کی حفاظت کو اور بے علم لوگوں کو اس کی تعلیم دینے کو ان پر واجب قرار دیا تھا۔۔۔ وہ اس کتاب پر گواہ ہیں کیونکہ وہی اس کتاب میں مندرج احکام کے بارے میں اور اس کی بابت لوگوں کے درمیان مشتبہ امور میں ان کے لئے مرجع ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل علم پر وہ ذمہ داری ڈالی ہے جو جہلا پر نہیں ڈالی اس لئے جس ذمہ داری کا بوجھ ان پر ڈالا گیا ہے، احسن طریقے سے اس کو نبھانا ان پر واجب ہے اور یہ کہ بیکاری اور کسل مندی کو عادت بناتے ہوئے جہال کی پیروی نہ کریں، نیز وہ مختلف انواع کے اذکار، نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ وغیرہ مجرد عبادات ہی پر اقتصار نہ کریں جن کو قائم کر کے غیر اہل علم نجات پاتے ہیں۔ اہل علم سے تو مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو تعلیم دیں اور انہیں ان دینی امور سے آگاہ کریں جن کے وہ محتاج ہیں خاص طور پر اصولی امور اور ایسے معاملات جو کثرت سے واقع ہوتے ہیں نیز یہ کہ وہ لوگوں سے نہ ڈریں بلکہ صرف اپنے رب سے ڈریں۔ بنا بریں فرمایا ﴿ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا﴾ ” پس تم لوگوں سے نہ ڈرو تم مجھی سے ڈرو ! اور میری آیات کے بدلے تھوڑا سا فائدہ حاصل نہ کرو“ یعنی دنیا کی متاع قلیل کی خاطر حق کو چھپا کر باطل کا اظہار نہ کرو۔ اگر صاحب علم ان آفات سے محفوظ ہوجاتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے۔ اس کی سعادت اس امر میں ہے کہ علم و تعلیم میں جدوجہد اس کا مقصد رہے۔ یہ چیز ہمیشہ اس کے علم میں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم کی امانت اس کے سپرد کر کے اس کی حفاظت اس کے ذمہ عائد کی ہے اور اس کو اس علم پر گواہ بنایا ہے۔ وہ صرف اپنے رب سے ڈرے، لوگوں کا ڈر اور خوف اسے لوازم علم کو قائم کرنے سے مانع نہ ہو۔ دین پر دنیا کو ترجیح نہ دے۔ اسی طرح کسی عالم کی بدبختی یہ ہے کہ وہ بے کاری کو اپنی عادت بنا لے اور جن چیزوں کا اسے حکم دیا گیا ہے ان کو قائم نہ کرے اور جس چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اسے سونپی گئی ہے اسے پورا نہ کرے۔ ایسے شخص نے علم کو بے کار اور ضائع کردیا۔ دنیا کے بدلے دنیا کو فروخت کر ڈالا، اس کے فیصلوں میں رشوت لی اس کے فتوؤں میں مال سمیٹا اور اللہ کے بندوں کو اجرت لے کر علم سکھایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس پر بہت بڑا احسان کیا تھا جس کی اس نے ناشکری کی، اللہ تعالیٰ نے اسے ایک عظیم نعمت عطا کی تھی، اس نے اس نعمت سے دوسروں کو محروم کردیا۔ اے اللہ ! ہم تجھ سے علم نافع اور عمل مقبول کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ کریم ہمیں ہر مصیبت سے عفو اور عافیت عطا کر۔ ﴿ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ﴾ ” اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے۔“ یعنی جو کوئی واضح حق کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا، بلکہ اپنی فاسد اغراض کی خاطر جان بوجھ کر باطل کے مطابق فیصلہ کرتا ہے ﴿فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾ ” تو ایسے ہی لوگ کفار ہیں۔“ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کو چھوڑ کر کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا اہل کفر کا شیوہ ہے اور بسا اوقات یہ ایسا کفر بن جاتا ہے جو اپنے مرتکب کو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کتاب اللہ کو چھوڑ کر کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا جائز اور صحیح سمجھتا ہے۔