إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
ان لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں، یہی ہے کہ انھیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انھیں بری طرح سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف سمتوں سے بری طرح کاٹے جائیں، یا انھیں اس سر زمین سے نکال دیا جائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محاربت کے مرتکب وہ لوگ ہیں جو اس کے ساتھ عداوت ظاہر کرتے ہیں اور قتل و غارت، کفر، لوٹ مار اور شاہراہوں کو غیر محفوظ بنانے کا ارتکاب کرتے ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ ان راہزنوں اور ڈاکوؤں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو بستیوں اور دیہات میں لوگوں پر حملے کر کے ان کا مال لوٹتے ہیں، ان کو قتل کرتے ہیں اور دہشت پھیلاتے ہیں۔ بنابریں لوگ ان شاہراہوں پر سفر کرنا بند کردیتے ہیں پس اس وجہ سے راستے منقطع ہوجاتے ہیں، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ حد نافذ کرتے وقت ان لوگوں کی سزا، ان سزاؤں میں سے ایک ہے جو اس آیت کریمہ میں مذکور ہیں۔ اصحاب تفسیر میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا ان سزاؤں میں اختیار ہے اور امام یا اس کا نائب ہر راہزن کو اپنی صواب دید اور مصلحت کے مطابق ان مذکورہ سزاؤں میں سے کوئی سزا دے سکتا ہے۔ آیت کریمہ کے الفاظ سے یہی ظاہر ہوتا ہے، یا ان کی سزا ان کے جرم کے مطابق دی جائے گی اور ہر جرم کے مقابلے میں ایک سزا ہے جیسا کہ آیت کریمہ اس پر دلالت کرتی ہے اور اس آیت کریمہ کا حکم اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ہے، یعنی اگر وہ قتل اور لوٹ مار کا ارتکاب کریں تو ان کو قتل کرنے اور سولی دینے کی سزا حتمی ہے۔ یہاں تک کہ ان کا سولی دیا جانا مشہور ہوجائے اور دوسرے لوگ لوٹ مار اور راہزنی سے باز آجائیں۔ اگر وہ لوگوں کو قتل کریں اور مال نہ لوٹیں تو ان کو صرف قتل کیا جائے۔ اگر وہ صرف مال لوٹیں اور لوگوں کو قتل کرنے سے باز رہیں تو مخالف سمت سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں یعنی دائیاں ہاتھ اور بائیاں کاٹ دیا جائے۔ اگر صرف لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور دہشت پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہوں اور انہوں نے کسی کا مال لوٹا ہو نہ کسی کو قتل کیا ہو تو ان کو جلا وطن کیا جائے گا اور ان کو کسی شہر میں پناہ نہیں لینے دی جائے گی یہاں تک کہ وہ توبہ کرلیں۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے اور بعض تفاصیل میں اختلاف کے باوجود بہت سے ائمہ نے اس قول کو اختیار کیا ہے۔ ﴿ذٰلِكَ ﴾ یہ سزا ﴿لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ﴾ ” ان کے لئے دنیا میں فضیحت اور عار ہے“ ﴿وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴾” اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔“ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ راہزنی بڑے گناہوں میں شمار ہوتی ہے جو دنیا و آخرت کی رسوائی اور فضیحت کی موجب ہے اور راہزنی کا مرتکب اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرتا ہے۔ جب یہ جرم اتنا بڑا ہے تو معلوم ہوا کہ مفسدین سے روئے زمین کی تطہیر کرنا، شاہراہوں کو قتل و غارت، لوٹ مار اور خوف و دہشت سے محفوظ کرنا، سب سے بڑی بھلائی اور سب سے بڑی نیکی ہے، نیز یہ زمین کے اندر صالح ہے جیسا کہ اس کی ضد فساد فی الارض ہے۔