يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ۚ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ
اے اہل کتاب! بے شک تمھارے پاس ہمارا رسول آیا ہے، جو تمھارے لیے ان میں سے بہت سی باتیں کھول کر بیان کرتا ہے، جو تم کتاب میں سے چھپایا کرتے تھے اور بہت سی باتوں سے در گزر کرتا ہے۔ بے شک تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے اس عہد اور میثاق کا ذکر کیا جو اس نے اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ سے لیا تھا مگر تھوڑے سے لوگوں کے سوا سب نے اس عہد کو توڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو حکم دیا کہ وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کی نبوت پر ایک قطعی دلیل کے ذریعے سے استدلال کیا اور وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے وہ چیزیں بیان کرتے ہیں جو وہ عام لوگوں سے چھپاتے ہیں حتیٰ کہ خود اپنے عوام سے بھی چھپاتے ہیں، پس جب یہی لوگ علم کے بارے میں عوام کا مرجع تھے اور علم کے خواہشمند کے لئے ان کے بغیر علم حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، تو ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کریم کے ساتھ مبعوث ہونا اور ان تمام امور کو کھول کھول کر بیان کردینا جو وہ چھپاتے تھے، وراں حالیکہ آپ ان پڑھ تھے اور لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی سب سے بڑی دلیل ہے، مثلاً ان کی کتابوں میں جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور بشارتیں موجود تھیں۔ اسی طرح آیت رجم کو، (جسے وہ چھپاتے تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا۔ ﴿وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ﴾ ” اور درگزر کرتا ہے وہ بہت سی چیزوں سے‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی ایسی باتوں کو بیان نہیں فرمایا جن کو بیان کرنا حکمت کا تقاضا نہیں تھا ﴿قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ ﴾” تحقیق آگیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور“ اس نور سے مراد قرآن کریم ہے جس سے جہالت کی تاریکیوں اور گمراہی کے اندھیروں میں روشنی حاصل کی جاتی ہے﴿ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ﴾ ” اور روشن کتاب۔“ مخلوق اپنے دین و دنیا کے جن امور کی محتاج ہے اس کتاب نے ان کو واضح کردیا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ، اس کے اسما و صفات اور افعال کا علم، احکام شرعی اور احکام جزائی کا علم، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ کون ہے جو اس قرآن سے رہنمائی حاصل کرتا ہے اور وہ کون سا سبب ہے جو بندہ اس راہنمائی کے حصول کے لئے اختیار کرتا ہے۔