فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ اسْتَنكَفُوا وَاسْتَكْبَرُوا فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
پھر جو لوگ تو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے سو وہ انھیں ان کے اجر پورے دے گا اور انھیں اپنے فضل سے زیادہ بھی دے گا اور رہے وہ جنھوں نے عار سمجھا اور تکبر کیا تو وہ انھیں درد ناک عذاب دے گا اور وہ اپنے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی دوست پائیں گے اور نہ کوئی مدد گار۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مذکورہ افراد کی بابت اپنے الگ الگ فیصلے کی بابت فرمایا : ﴿فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾” پس وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کئے‘‘ یعنی انہوں نے ایمان مامور کے ساتھ اعمال صالحہ یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ضمن میں واجبات و مستحبات کو جمع کیا ﴿فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ﴾ ” وہ ان کو ان کا پورا بدلہ دے گا۔“ یعنی وہ اجر، جس کو اللہ تعالیٰ نے اعمال پر مترتب فرمایا ہے۔ ہر شخص کو اس کے ایمان اور عمل کے مطابق ملے گا۔ ﴿وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِ﴾ ” اور اپنے فضل سے کچھ زیادہ بھی عنایت کرے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ثواب میں اتنا اضافہ کرے گا کہ ان کے اعمال یہ ثواب حاصل نہیں کرسکتے، ان کے افعال اس ثواب تک نہیں پہنچ سکتے اور اس ثواب کا تصور بھی ان کے دل میں نہیں آسکتا۔ اس ثواب میں ہر وہ چیز شامل ہے جو جنت میں موجود ہے، مثلاً ماکولات، مشروبات، بیویاں، خوبصورت مناظر، فرحت و سرور، قلب و روح اور بدن کی نعمتیں، بلکہ اس میں ہر دینی اور دنیاوی بھلائی شامل ہے جو ایمان اور عمل صالح پر مترتب ہوتی ہے۔ ﴿وَأَمَّا الَّذِينَ اسْتَنكَفُوا وَاسْتَكْبَرُوا ﴾ ” لیکن وہ لوگ جنہوں نے عار کی اور تکبر کیا“ یعنی وہ لوگ جو تکبر کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کو عار سمجھتے ہیں ﴿فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴾” ان کو وہ تکلیف دینے والا عذاب دے گا۔“ یہ عذاب الیم، اللہ تعالیٰ کی ناراضی، اس کے غضب اور بھڑکتی ہوئی آگ پر مشتمل ہے جو دلوں کے ساتھ لپٹ جائے گی۔ ﴿وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّـهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا ﴾” اور یہ لوگ اللہ کے سوا اپنا حامی اور مددگار نہ پائیں گے۔“ یعنی وہ مخلوق میں کوئی ایسا شخص نہیں پائیں گے جو ان کا ولی و مددگار بن سکے اور وہ اپنا مطلوب و مقصود حاصل کرسکیں اور نہ ان کا کوئی حامی و ناصر ہوگا جو ان سے اس چیز کو دور کرسکے جس سے یہ ڈرتے ہیں، بلکہ صورت حال یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ جو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے وہ بھی ان سے الگ ہوجائے گا اور ان کو دائمی عذاب میں چھوڑ دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جو فیصلہ کرتا ہے اس کے فیصلے کو کوئی رد نہیں کرسکتا اور نہ اس کی قضا کو کوئی بدل سکتا ہے۔