إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا
مگر وہ لوگ جنھوں نے توبہ کی اور اصلاح کرلی اور اللہ کو مضبوطی سے تھام لیا اور اپنا دین اللہ کے لیے خالص کرلیا تو یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہوں گے اور اللہ مومنوں کو جلد ہی بہت بڑا اجر دے گا۔
﴿وَأَصْلَحُوا﴾ ’’اور وہ (اپنے ظاہر و باطن کی) اصلاح کرلیں۔“ ﴿وَاعْتَصَمُوا بِاللَّـهِ﴾ اور اللہ (کی رسی) کو مضبوط پکڑ لیں۔“ اپنے منافع کے حصول اور ضرر کے دفعیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیں﴿وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ)﴾’’اور اپنے دین کو خالص کرلیں“ یہاں دین سے مراد اسلام، ایمان اور احسن ہے ﴿لِلَّـهِ﴾ ” اللہ کے لئے“ یعنی ظاہری اور باطنی اعمال میں ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہو، نیز ریا اور نفاق سے بچے ہوئے ہوں۔ جو لوگ ان صفات سے متصف ہوں گے ﴿فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ﴾وہی دنیا، برزخ اور آخرت میں اہل ایمان کے ساتھ ہوں گے ﴿وَسَوْفَ يُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ ”اور اللہ عنقریب مومنوں کو بڑا ثواب دے گا۔“ اللہ تعالیٰ عنقریب اہل ایمان کو ایسے اجر سے نوازے گا جس کی حقیقت و ماہیت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے دل میں اس کے تصور کا گزر ہوا ہے۔ غور کیجئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ” اعتصام باللہ“ اور ” اخلاص“ کا خاص طور پر ذکر کیا ہے حالانکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ارشاد (وَأَصْلَحُوا) میں داخل ہیں کیونکہ ” اعتصام باللہ“ اور ” اخلاص“ اصلاح کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصلاح میں ان دو امور کی سخت ضرورت ہے۔ خاص طور پر یہ مقام حرج جہاں دلوں میں نفاق جڑ پکڑ لیتا ہے۔۔۔ اور نفاق کو صرف اعتصام باللہ اللہ کے پاس پناہ لینے، اور اس کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حاجت پیش کر کے ہی زائل کیا جاسکتا ہے۔ اخلاص ہر لحاظ سے پوری طرح نفاق کے منافی ہے۔ اخلاص اور اعتصام کی فضیلت کی بنا پر ان کا تذکرہ کیا ہے، تمام ظاہری اور باطنی اعمال کا دار و مدار انہی دو امور پر ہے کیونکہ اس مقام پر ان دونوں امور کی سخت حاجت ہوتی ہے۔ اس امر پر بھی غور کیجیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ ان کا ذکر کیا تو ان کے کرتوتوں کی وجہ سے اس نے یہ نہیں فرمایا: (وَسَوْفَ يُؤْتِيهِمْا أَجْرًا عَظِيمًا) بلکہ فرمایا : ﴿وَسَوْفَ يُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ شریف ہے جس کا وہ ہمیشہ اعادہ کرتا رہا ہے کہ جب کلام کا سیاق بعض جزئیات کے بارے میں ہو اور اللہ تعالیٰ ان جزئیات پر ثواب یا عقاب مرتب کرنا چاہتا ہو اور جس جنس میں یہ جزئیات داخل ہیں ثواب یا عقاب ان میں مشترک ہو تو وہ عام حکم کے مقابلہ میں، جس کے تحت یہ قضیہ مندرج ہے ثواب مرتب کرتا ہے تاکہ اس جزوی امر کے ساتھ حکم کا اختصاص متوہم نہ ہو یہ قرآن کریم کے اسرار و بدائع ہیں۔ پس منافقین میں سے اپنے نفاق سے توبہ کرنے والا شخص اہل ایمان کے ساتھ ہوگا اور اسے بھی اہل ایمان والا ثواب ملے گا۔