سورة القارعة - آیت 1

لْقَارِعَةُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ کھٹکھٹانے والی۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿اَلْقَارِعَۃُ﴾ قیامت کے دن کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور اس کو اس نام سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ یہ لوگوں پر اچانک ٹوٹ پڑے گی اور اپنی ہولناکیوں سے ان کو دہشت زدہ کردے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے معاملے کی عظمت اور اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿اَلْقَارِعَۃُ مَا الْقَارِعَۃُ وَمَآ اَدْرٰیکَ مَا الْقَارِعَۃُ یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ﴾ ”کھڑ کھڑا دینے والی۔ کیا ہے کھڑ کھڑا دینے والی ؟ تجھے کیا معلوم کہ وہ کھڑا کھڑا دینے والی کیا ہے؟ جس دن ہوجائیں گے لوگ۔“ سخت گھبراہٹ اور ہولناکی کی وجہ سے ﴿کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ﴾ ” بکھرے ہوئے پردانوں کی طرح۔ “ یعنی بکھرے ہوئے ٹڈی دل کی طرح ہوں گے جو ایک دوسرے میں موجزن ہوگا۔( الفراش)۔ یہ وہ حیوانات (پتنگے )ہیں جو رات کے وقت (روشنی میں ) ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر موج بن کر آتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کہاں کارخ کریں، جب ان کے سامنے آگ روشن کی جائے تو اپنے ضعف ادراک کی بنا پر ہجوم کرکے اس میں آ گرتے ہیں۔ یہ تو حال ہوگا خرد مند لوگوں کا۔