وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا
اور وہ تجھ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں، کہہ دے اللہ تمھیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے اور جو کچھ تم پر کتاب میں پڑھا جاتا ہے وہ ان یتیم عورتوں کے بارے میں ہے جنھیں تم وہ نہیں دیتے جو ان کے لیے فرض کیا گیا ہے اور رغبت رکھتے ہو کہ ان سے نکاح کرلو اور نہایت کمزور بچوں کے بارے میں ہے اور اس بارے میں ہے کہ یتیموں کے لیے انصاف پر قائم رہو اور تم جو بھی نیکی کرو سو بے شک اللہ ہمیشہ سے اسے خوب جاننے والا ہے۔
(اِسْتِفْتَاء) سے مراد ہے سائل کا مسئول (مفتی یا عالم) سے اپنے مسئلہ کے بارے میں شرعی حکم کا بیان طلب کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمن کے بارے میں خبر دی ہے کہ انہوں نے عورتوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفتاء کیا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود اس استفتاء کا جواب دیا : ﴿قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ ﴾ ” کہہ دیجیے کہ خود اللہ ان کے بارے میں تمہیں حکم دے رہا ہے۔“ پس عورتوں کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ نے جو فتویٰ دیا ہے اس پر عمل کرو۔ عام طور پر اور خاص طور پر ان کے حقوق کو ادا کرو اور ان پر ظلم کرنا چھوڑ دو۔ یہ حکم عام ہے اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں خواہ وہ بیویاں ہوں یا کوئی اور، چھوٹی ہوں یا بڑی ہوں، امرونہی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مشروع کیا ہے، سب کو شامل ہے۔ اس عموم کے بیان کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے کمزور بچوں اور یتیموں کے معاملے میں اہتمام اور ان کے حقوق میں کوتاہی پر زجر و توبیخ کے طور پر، خصوصی وصیت فرمائی ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ﴾ ’’یتیم عورتوں کے معاملے میں کتاب اللہ کے اندر جو کچھ تم پر تلاوت کیا جاتا ہے (اللہ تعالیٰ تمہیں اسی کا فتویٰ دیتا ہے۔) “ ﴿اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ﴾ ” وہ جن کو تم نہیں دیتے، جو ان کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔“ یہ اس وقت کی موجودہ حالت کے بارے میں خبر ہے۔ کیونکہ یتیم لڑکی جب کسی کی سرپرستی میں ہوتی تھی تو وہ اس کی حق تلفی کرتا اور اس پر ظلم کا ارتکاب کرتا تھا یا تو اس کا تمام مال یا اس کا کچھ حصہ کھا جاتا، یا اس کو نکاح کرنے سے روکتا تاکہ اس کے مال سے فائدہ اٹھاتا رہے اور اس خوف سے کہ اگر اس نے اس کا نکاح کردیا تو مال ہاتھ سے نکل جائے گا اور اگر وہ اس عورت میں رغبت نہ رکھتا تو جس شخص سے یہ نکاح کرتی، اس پر شرائط وغیرہ عائد کرتا، یا اگر وہ اس کے حسن و جمال کی وجہ سے، اس کے ساتھ خود نکاح کرنے کی خواہش رکھتا تو اس کے مہر کو ساقط تو نہ کرتا مگر اسے اتنا حق مہر بھی ادا نہ کرتا جتنے مہر کی وہ مستحق ہوتی۔ یہ تمام صورتیں ظلم کی تھیں، جو اس نص کے تحت آتی ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ﴾ ” تم ان سے نکاح کرنے کی رغبت رکھتے ہو۔“ یعنی تم ان کے ساتھ نکاح کرنے سے گریز کرتے ہو یا نکاح کرنے میں رغبت رکھتے ہو، جیسا کہ ہم نے اس کی مثال بیان کی ہے۔ ﴿وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ﴾ ” اور بے کس بچوں کے بارے میں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کمزور اور چھوٹے بچوں کے بارے میں تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم وراثت میں ان کا حق ادا کرو اور ظلم و استبداد سے ان کے مال پر قبضہ نہ جمالو۔ ﴿وَأَن تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ﴾ ” اور یہ (بھی حکم دیتا ہے) کہ یتیموں کے بارے میں پورے عدل و انصاف سے کام لو“ اس حکم میں ان کے معاملات کی دیکھ بھال، ان سے ان احکام کا التزام کروانا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واجب قرار دیئے ہیں سب شامل ہیں اس بارے میں یتیموں کے سرپرست مکلف ٹھہرائے گئے کہ وہ ان سے اللہ تعالیٰ کے واجبات کا التزام کروائیں اس حکم میں ان کے دنیاوی مصالح کی دیکھ بھال، ان کے مال میں اضافہ کرنا اور ان کے لئے بہتری طلب کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ نیز یہ کہ اس کے سرپرست احسن طریقے سے ان کے مال کے قریب جائیں۔ اسی طرح ان کے نکاح وغیرہ میں ان کی حق تلفی کرتے ہوئے کسی دوست وغیرہ کی محبت کو ترجیح نہ دیں۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت اور انتہائی درجے کی ترغیب ہے کہ ان لوگوں کے مصالح کی دیکھ بھال کی جائے جو اپنی کمزوری اور اپنے باپ سے محروم ہونے کی بنا پر خود اپنے مفادات کی دیکھ بھال نہیں کرسکتے۔ پھر علی العموم بھلائی کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ ﴾ ” اور تم جو بھلائی کرو گے۔‘‘ یعنی تم یتیموں یا دوسروں کے ساتھ جو بھلائی کرو گے خواہ یہ بھلائی متعدی ہو یا صرف تمہیں تک محدود ہو ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا﴾” اللہ اس کو جانتا ہے۔“ یعنی نیک عمل کرنے والوں کے اعمال کو اللہ تعالیٰ کے علم نے احاطہ کر رکھا ہے۔ اعمال خواہ کم ہوں یا زیادہ، اچھے ہوں یا برے، اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا دے گا۔