فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ
پس لیکن یتیم، پس (اس پر) سختی نہ کر۔
اس لیے فرمایا : ﴿فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْ﴾ یعنی یتیم کے ساتھ برا معاملہ نہ کیجئے، آپ اس پر تنگ دل ہوں نہ آپ اسے جھڑکیں بلکہ اس کا اکرام کریں جو کچھ میسر ہے آپ اسے عطا کریں اور آپ اس کے ساتھ ایسا سلوک کریں جیسا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بعد آپ کی اولاد سے کیا جائے ۔ ﴿وَاَمَّا السَّایِٕلَ فَلَا تَنْہَرْ﴾ یعنی آپ کی طرف سے سائل کے لیے کوئی ایسی بات، یعنی ڈانٹ اور ترش روئی وغیرہ صادر نہ ہو جو سائل کو اس کے مطلوب سے رد کرنے کی مقتضی ہو بلکہ آپ کے پاس جو کچھ میسر ہے اسے عطا کردیجئے یا اسے معروف اور بھلے طریقے سے لوٹا دیجئے۔ اس میں مال کا سوال کرنے والا اور علم کا سوال کرنے والا دونوں داخل ہیں، بنابریں معلم متعلم کے ساتھ حسن سلوک، اکرام وتکریم اور شفقت ومہربانی سے پیش آنے پر مامور ہے ، کیونکہ ایسا کرنے میں اس کے مقصد میں اس کی اعانت اور اس شخص کے لیے اکرام وتکریم ہے جو قوم وملک کو نفع پہنچانے کے لیے کوشاں ہے۔