وَمَا لِأَحَدٍ عِندَهُ مِن نِّعْمَةٍ تُجْزَىٰ
حالانکہ اس کے ہاں کسی کا کوئی احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔
﴿وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓی﴾ یعنی اس متقی پر مخلوق میں سے کسی کا کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو، اس نے نعمت کا بدلہ اتار دیا ہے۔ بسا اوقات لوگوں پر اس کا فضل واحسان باقی رہ جاتا ہے ۔ پس وہ بندے پر اللہ کے لیے مخلصانہ ہمدردی وخیر خواہی کرتا ہے ، کیونکہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کے احسان ہی کے زیر بار ہے۔ رہا وہ شخص جس پر لوگوں کا احسان باقی ہے اور اس نے اس کا بدلہ نہیں دیا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگوں کے لیے چھوڑ دیا جائے گا جس کی وجہ سے وہ ان کی خاطر کوئی ایسا فعل سرانجام دے گا جو اس کے اخلاص میں نقص ڈالے گا۔ آیت کریمہ کا مصداق اگرچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سبب ہی سے نازل ہوئی۔ ان پر مخلوق میں سے کسی کا بھی کوئی احسان نہیں تھا کہ جس کا اسے بدلہ دیا جارہا ہو حتی ٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی آپ پر کوئی ( دنیاوی ) احسان نہ تھا ۔ البتہ بحثییت رسول احسان تھا جس کا بدلہ اتارنا کسی کے لیے ممکن نہیں اور یہ ہے دین اسلام کی طرف دعوت دینے کا احسان، ہدایت اور دین حق کی تعلیم، کیونکہ ہر شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر احسان ہے ۔یہ ایسا احسان ہے جس کا بدلہ دیاجاسکتا ہے نہ مقابلہ کیا جاسکتا ہے ، تاہم جو بھی ان اوصاف فاضلہ سے متصف ہوگا ، اس کا مصداق ٹھہرے گا۔ پس تمام مخلوق میں سے کسی کا کوئی احسان اس کے ذمے باقی نہ رہا جس کا بدلہ دیا جائے ، لہٰذا اس کے تمام اعمال خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں ، اس لیے فرمایا : ﴿اِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی وَلَسَوْفَ یَرْضٰی﴾ ” وہ صرف اپنے رب اعلی ٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے اور وہ عنقریب خوش ہوجائے گا۔“ یہ متقی مختلف انواع کے اکرام وتکریم اور ثواب پر راضی ہوگا جو اللہ تعالیٰ اسے عطا کرے گا۔