إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا
بے شک ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی، تاکہ تو لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ نے تجھے دکھایا ہے اور تو خیانت کرنے والوں کی خاطر جھگڑنے والا نہ بن۔
اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول پر حق کے ساتھ کتاب نازل کی یعنی بوقت نزول اس کتاب کو شیاطین کے باطل وسوسوں سے محفوظ و مامون رکھا، بلکہ یہ کتاب عظیم حق کے ساتھ نازل ہوئی اور حق پر ہی مشتمل ہے۔ اس کی خبریں سچی اور اس کے اوامرو نواہی عدل پر مبنی ہیں۔﴿ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا﴾(الانعام :6؍115) ” اور تیرے رب کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہوئیں۔ “ اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اس کتاب کو اس لیے نازل فرمایا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے۔ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ (النحل :16؍44) ” ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قرآن نازل کیا تاکہ جو کچھ ان کی طرف نازل کیا گیا ہے آپ لوگوں پر واضح کردیں۔“ اس امر کا بھی احتمال ہے کہ یہ آیت کریمہ لوگوں کے آپس کے اختلافات اور نزاعی مسائل کے فیصلے کے بارے میں نازل ہوئی ہو اور سورۃ النحل کی آیت کریمہ تمام دین، اس کے اصول و فروع کی تبیین کے بارے میں نازل ہوئی ہو۔ نیز یہ احتمال بھی ہے کہ دونوں آیات کے معنی ایک ہی ہوں۔ تب اس صورت میں لوگوں کے درمیان یہ فیصلہ کرنا، ان کے خون، اموال، عزت و آبرو، حقوق، عقائد اور تمام مسائل و احکام کے فیصلوں کو شامل ہے۔ فرمایا : ﴿بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ ﴾ ” اللہ کی ہدایات کے مطابق“ یعنی آپ اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ نہ کریں بلکہ اس الہام اور علم کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴾ (النجم 53؍3۔4) ” ہمارا رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ یہ تو وحی ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ “ یہ آیت کریمہ اس امر کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام احکام میں معصوم اور محفوظ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو پہنچائے، نیز اس امر کی دلیل ہے کہ فیصلہ کرنے کے لیے علم اور عدل شرط ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ ﴾” اللہ کی ہدایات کے مطابق“ اور یہ نہیں فرمایا : (بِمَا رَأَیْتَ) ” جو آپ نے دکھا یا جو آپ کی اپنی رائے ہے“ اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کو کتاب اللہ کی معرفت پر مترتب فرمایا ہے۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کے مابین ایسے فیصلے کا حکم دیا ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو اس لیے ظلم و جور سے منع کیا ہے جو عدل و انصاف کی عین ضد ہے۔ پس فرمایا : ﴿وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴾” اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو“ یعنی جس کی خیانت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہے کہ اس کا دعویٰ ناحق ہے یا وہ کسی کے حق کا انکار کر رہا ہے، اس کی حمایت میں جھگڑا نہ کریں۔ خواہ وہ علم رکھتے ہوئے اس خیانت کا ارتکاب کر رہا ہو یا محض ظن و گمان کی بنا پر۔ آیت کریمہ کے اس حصے میں کسی باطل معاملے میں جھگڑنے اور دینی خصوصیات اور دنیاوی حقوق میں کسی باطل پسند کی نیابت کی تحریم کی دلیل ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ کسی ایسے شخص کے جھگڑے کی نیابت کرنا جائز ہے جو کسی ظلم میں معروف نہ ہو۔