ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُو الْجَحِيمِ
پھر بے شک وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں یقیناً داخل ہونے والے ہیں۔
﴿ثُمَّ اِنَّہُمْ﴾ پھر اس انتہائی عقوبت کے بعد وہ لوگ یقینا ﴿ لَصَالُوا الْجَــحِیْمِ﴾ جہنم میں جھونکے جائیں گے، پھر زجر وتوبیخ کے طور پر ان سے کہا جائے گا : ﴿ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ﴾ ” یہی ہے وہ چیز جسے تم جھٹلایا کرتے تھے ۔“ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب کی تین انواع کا ذکر کیا ہے: (١) جہنم کا عذاب (٢) زجر وتوبیخ اور ملامت کا عذاب (٣) اور رب کائنات سے محجوب ہونے کا عذاب جو ان پر اس کی ناراضی اور غضب کو متضمن ہے اور یہ ان کے لیے جہنم کے عذاب سے بڑھ کر ہوگا۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ اہل ایمان قیامت کے روز جنت میں اپنے رب کا دیدار کریں گے، وہ تمام لذات سے بڑھ کر اس دیدار سے لذت حاصل کریں گے ۔ اس کے ساتھ ہم کلامی سے خوش ہوں گے اور اس کے قرب سے فرحت حاصل کریں گے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی متعدد آیات میں اس کا ذکر کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نہایت تواتر کے ساتھ منقول ہے۔ ان آیات میں گناہوں سے تحذیر ہے ، کیونکہ ان کا اثر دل پر ہوتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ اسے ڈھانپ لیتے ہیں حتیٰ کہ وہ اس کے نور کو ختم کردیتے ہیں، اس کی بصیرت ختم کردیتے ہیں ، پھر انسان پر حقائق پلٹ جاتے ہیں ۔وہ باطل کو حق اور حق کو باطل سمجھنے لگتا ہے اور یہ گناہوں کی سب سے بڑی سزا ہے۔