اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۗ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثًا
اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہر صورت تمھیں قیامت کے دن کی طرف (لے جاکر) جمع کرے گا، جس میں کوئی شک نہیں اور اللہ سے زیادہ بات میں کون سچا ہے۔
اللہ تعالیٰ وحدانیت میں اپنی انفرادیت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے نیز یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود اور الٰہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات اور اوصاف میں کامل ہے، نیز اس لیے کہ وہ تخلیق و تدبیر کا ئنات میں اور ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کرنے میں متفرد ہے اور یہ امر اس کی عبادت اور عبودیت کی تمام انواع کے ذریعے سے اس کے تقرب کو مستلزم ہے، اس لیے اس نے محل جزا کے وقوع یعنی روز قیامت پر قسم کھائی ہے۔ فرمایا : ﴿لَيَجْمَعَنَّكُمْ ﴾ ” وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے اولین و آخرین کو ایک ہی جگہ پر جمع کرے گا ﴿إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ﴾ ” قیامت کے دن“ یعنی عقلی اور سمعی دلیل کے اعتبار سے کسی بھی پہلو سے قیامت میں کوئی شک نہیں۔ رہی عقلی دلیل تو ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ زمین کے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اسے زندگی عطا کرتا ہے۔ امکان کے اعتبار سے پہلی دفعہ پیدا کرنے سے دوسری دفعہ پیدا کرنا زیادہ آسان ہے۔ حکمت الٰہی انسان پر واجب ٹھہراتی ہے کہ وہ قطعی طور پر جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو عبث پیدا نہیں کیا کہ وہ زندگی حاصل کریں گے اور بس مر جائیں گے۔ (اور اس کے بعد کچھ نہیں ہوگا، ایسا نہیں ہوگا، بلکہ روز قیامت حساب ہوگا) رہی سمعی اور نقلی دلیل تو سب سے زیادہ سچی ہستی نے اس کے وقوع کے بارے میں خبر دی ہے بلکہ اس پر قسم کھائی ہے۔ ﴿وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـهِ حَدِيثًا ﴾ ” اللہ سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہوگا“ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حقیقت پر قسم کھانے کا حکم دیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن لَّن يُبْعَثُوا ۚ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۚ وَذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرٌ ﴾ (التغابن :64؍7) ” وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، سمجھتے ہیں کہ انہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا نہیں جائے گا کہہ دو ! ہاں میرے رب کی قسم ! تمہیں ضرور اٹھایا جائے گا اور جو اعمال تم نے کئے ہیں ان کے بارے میں تمہیں ضرور بتایا جائے گا اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـهِ حَدِيثًا ﴾ اور ﴿وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـه قِيلًا ﴾میں اس بات کی خبر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات، اس کی خبریں اور اس کے اقوال صداقت کے اعلیٰ مراتب بلکہ اعلیٰ ترین مراتب پر ہیں، لہٰذا ہر وہ بات جو عقائد، علوم اور اعمال کے بارے میں کہی گئی ہو اگر وہ اللہ تعالیٰ کی خبر کے خلاف ہے تو وہ باطل ہے کیونکہ یہ امور یقینی طور پر سچی خبر کے متناقض ہیں ان کا حق ہونا ممکن ہی نہیں۔