أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا
اس سے اس کا پانی اور اس کا چارا نکالا۔
پھر اپنے اس ارشاد سے اس کی تفسیر بیان کی: ﴿اَخْرَجَ مِنْہَا مَاءَہَا وَمَرْعٰیہَا۔ وَالْجِبَالَ اَرْسٰیہَا﴾ ” اسی نے اس میں سےاس کا پانی نکالا اور چارا اگایا اور پہاڑوں کو گاڑ دیا۔ “ یعنی انہیں زمین پر مضبوطی سے جمایا، آسمانوں کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے زمین کو پھیلا کر ہموار کیا ،جیسے کہ ان آیات کریمہ میں منصوص ہے اور رہی خودزمین کی تخلیق تو یہ آسمان کی تخلیق سے متقدم ہے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِّثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ ﴾( حم السجدۃ:41؍9۔12) ” کہہ دیجئے: کیا تم اس ہستی کا انکار کرتے ہو، جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا اور تم ہو کہ اس کے ہم سر بناتے ہو ، وہ تمام جہانوں کارب ہے اور اس نے زمین کے اوپر پہاڑ رکھ دیے اور اس کے اندر برکت رکھ دی اور چار دن میں اس کے اندر اس کی غذاؤں کو مقدر کردیا، تمام طلب گاروں کے لیے یکساں طور پر ، پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ دھواں تھا ، پس اس نے آسمان سے اور زمین سے کہا ، دونوں آؤ ، خوش دلی سے یا بادل نخواستہ، انہوں نے کہا ہم خوشی سے آتے ہیں ، پس اس نے دو دن میں سات آسمان بنادیے۔“ پس جس نے بڑے بڑے آسمان، ان کی روشنیاں، اجرام فلکی، گرد بھری اور کثیف زمین، اس کے اندر مخلوق کی ضروریات اور ان کی منفعتیں ودیعت کردیں ، وہ ضرور مکلف مخلوق کو دوبارہ زندہ کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا وسزا دے گا ۔ پس جس نے نیکی کی اس کے لیے بھلائی ہے اور جس نے برائی کی وہ صرف اپنے نفس کو ملامت کرے ۔ بنابریں اس کے بعد قیامت کے برپا ہونے کا ذکر کیا اور پھر جزا وسزا کا ذکر کیا۔چنانچہ فرمایا: