أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، پھر جب ان پر لڑنا لکھا گیا اچانک ان میں سے کچھ لوگ، لوگوں سے ڈرنے لگے، جیسے اللہ سے ڈرنا ہو، یا اس سے بھی زیادہ ڈرنا اور انھوں نے کہا اے ہمارے رب! تو نے ہم پر لڑنا کیوں لکھ دیا، تو نے ہمیں ایک قریب وقت تک مہلت کیوں نہ دی۔ کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو متقی بنے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
جب مسلمان مکہ مکرمہ میں تھے تو انہیں نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا گیا تھا، یعنی محتاجوں کی غمگساری کرنا اور اس سے مراد وہ معروف زکوٰۃ نہیں جو ایک مخصوص نصاب کے مطابق اور مخصوص شرائط کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ یہ زکوٰۃ مدینہ منورہ میں فرض ہوئی تھی اسی طرح اس وقت تک متعدد فوائد کی بنا پر جہاد کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ مثلاً (١) اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے بندوں پر شریعت کے احکام اس طرح فرض کرے کہ وہ ان پر شاق نہ گزریں۔ سب سے پہلے اہم ترین امر کا حکم دے، پھر آسان امور سے ابتدا کر کے بتدریج مشکل امور کا حکم دے۔ (٢) اگر اہل ایمان پر ان کی قلت تعداد و قلت سامان اور کثرت اعداء کے باوجود قتل فرض کردیا جاتا تو یہ چیز اسلام کو مضمحل کردیتی۔ اس لیے چھوٹی مصلحت کو نظر انداز کر کے بڑی مصلحت کی رعایت رکھی گئی اور اس میں اس قسم کی دیگر حکمتیں تھیں۔ بعض اہل ایمان چاہتے تھے کہ اس حال میں بھی ان پر قتال فرض کردیا جاتا مگر ان حالات میں ان پر جہاد فرض کیا جانا مناسب نہ تھا۔ اس وقت ان لوگوں کے لیے مناسب یہی تھا کہ وہ توحید، نماز، زکوٰۃ اور اس نوع کے دیگر احکام پر عمل کرتے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا ﴾(النساء :4؍66) ” اگر یہ اس نصیحت پر عمل کرتے جو ان کو کی جاتی ہے تو ان کے لیے بہتر ہوتا اور دین میں زیادہ ثابت قدمی اور استقامت کا باعث ہوتا۔ “ جب مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اور اسلام قوی ہوگیا تومناسب وقت پر ان پر قتال فرض کردیا گیا۔ وہ لوگ جو اس سے قبل قتال فرض ہونے کے لیے جلدی مچاتے تھے ان میں سے ایک گروہ نے لوگوں کے خوف، کمزوری اور بزدلی کی وجہ سے کہا۔ ﴿ رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ﴾ ” اے ہمارے رب تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا ؟“ ان الفاظ سے ان کی تنگ دلی اور اللہ تعالیٰ پر اعتراض کا اظہار ہوتا ہے حالانکہ ان کے لیے مناسب حال یہ تھا کہ وہ اس سے متضاد رویہ کا اظہار کرتے یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا اور اس کے اوامر پر صبر کرنا، مگر جو کچھ ان سے مطلوب تھا انہوں نے اس کے برعکس کیا۔ پس انہوں نے کہا ﴿لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ﴾ ” تھوڑی مدت اور ہمیں کیوں مہلت نہ دی۔“ یعنی تو نے قتال کی فرضیت کچھ عرصہ اور مؤخر کیوں نہ کردی۔ غالب طور پر اس قسم کی صورت ان لوگوں کو پیش آتی ہے جو غیر سنجیدہ ہوتے ہیں اور تمام امور میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا غالب رویہ یہ ہوتا ہے کہ ان امور کے نازل ہونے پر یہ لوگ صبر نہیں کرسکتے۔ یہ امور ان کے لیے بوجھل تو نہیں مگر یہ لوگ بہت ہی کم صبر سے بہرہ ور ہیں۔ جن حالات میں وہ جہاد سے جی چرا کر بیٹھ رہے ان سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو نصیحت کی چنانچہ فرمایا : ﴿قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ﴾ ” آپ کہہ دیجیے دنیا کا فائدہ تو بہت ہی کم ہے اور آخرت اس شخص کے لیے بہتر ہے جو متقی ہے“ یعنی دنیا کی لذت اور راحت سے فائدہ اٹھانا بہت ہی کم عرصہ کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں تھوڑی سی مدت کے لیے بھاری بوجھ اٹھانا نفوس انسانی کے لیے آسان اور ہلکا ہوتا ہے کیونکہ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشقت جو وہ برداشت کر رہا ہے طویل عرصے کے لیے نہیں ہے تو اس کے لیے اس کو برداشت کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ تب کیا کیفیت ہوگی جب تو دنیا اور آخرت کا موازنہ کرے اور معلوم ہو کہ آخرت اپنی ذات اور لذات میں اور زمان کے اعتبار سے دنیا سے کہیں بہتر ہے۔ جنت کی ذات کے بارے میں ایک صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” جنت میں ایک کوڑے کے برابر جگہ دینا اور اس کی موجودات سے کہیں بہتر ہے۔“ [جامع ترمذي، تفسير، باب و من سورة آل عمران، حديث: 3513] جنت کی لذتیں ہر قسم کی کدورتوں سے پاک ہیں بلکہ لذت کا جو تصور بھی فکر و خیال کی گرفت میں آسکتا ہے۔ جنت کی لذتیں اس پر فوقیت رکھتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ ﴾(السجدہ :32؍17) ” کوئی انسان نہیں جانتا کہ ان کے لیے (جنت میں) کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔“ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر فرمایا :” میں نے (جنت میں) اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی کے خیال میں ان کا کبھی گزر ہوا ہے۔“ [مسند احمد: 2؍ 438] رہی دنیا کی لذتیں تو یہ مختلف قسم کی کدورتوں کے شائبے سے پاک نہیں ہوتیں۔ اگر ان لذات کا ان آلام و مصائب اور غم و ہموم سے مقابلہ کیا جائے جو ان لذات کے ساتھ ملے ہوتے ہیں تو جنت کی لذتوں کے ساتھ کسی بھی لحاظ سے ان کی کوئی نسبت ہی نہیں۔ رہا ان لذات کا زمانہ، تو دنیا آخر کار ختم ہوجائے گی اور انسان کی عمر، دنیا کی نسبت سے نہایت ہی معمولی سا عرصہ ہے۔ آخرت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں اور وہاں کے رہنے والوں کے لیے ہمیشہ کی زندگی ہے۔ جب عقلمند شخص ان دو گھروں کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے اور ان کی حقیقت کا تصور کرتا ہے جیسا کہ تصور کرنے کا حق ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ ان میں سے کو نسا گھر ترجیح کا مستحق ہے؟ کس کے لیے کوشش کرنی چاہئے اور کس کی طلب میں اسے جدوجہد کرنی چاہئے؟ ﴿ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ﴾” اور پرہیز گار کے لیے آخرت تو بہت اچھی چیز ہے۔“ یعنی جو کوئی شرک اور دیگر تمام محرمات سے بچتا ہے اس کے لیے آخرت بہتر ہے۔ ﴿وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا﴾” اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا“ تم آخرت کے گھر کے لیے جو دوڑ دھوپ کرو گے تو اس کا کامل اور وافر اجر پاؤ گے جس میں کچھ بھی کم نہ ہوگی۔