الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا
وہ لوگ جو ایمان لائے وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا وہ باطل معبود کے راستے میں لڑتے ہیں۔ پس تم شیطان کے دوستوں سے لڑو، بے شک شیطان کی چال ہمیشہ نہایت کمزور رہی ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے کہ اہل ایمان اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ﴾ ”اور کافر طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں“ یہاں طاغوت سے مراد شیطان ہے۔ اس آیت سے متعدد فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ (١) بندہ مومن کے ایمان، اس کے اخلاص اور اس کی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق، اس کا جہاد اللہ کے راستے میں جہاد شمار ہوتا ہے۔ پس جہاد فی سبیل اللہ ایمان کے آثار، اس کے مقتضیات اور اس کے لوازم میں سے ہے۔ جیسے طاغوت کی راہ میں لڑنا کفر اور اس کے مقتضیات میں سے ہے۔ (٢) جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اس کے لیے مناسب اور بہتر یہ ہے کہ وہ ایسے صبر و استقلال سے کام لے جس کا مظاہرہ دیگر لوگ نہیں کرسکتے جب اولیائے شیطان لڑائی کرتے ہیں اور لڑائی میں صبر سے کام لیتے ہیں حالانکہ وہ اہل باطل ہیں۔ تب اہل حق کو تو صبر و استقلال سے زیادہ کام لینا چاہیے جیسا کہ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْجُونَ﴾(النساء :4؍104) ” اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو جس طرح تمہیں تکلیف پہنچتی ہے اسی طرح ان کفار کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔ البتہ تم اللہ تعالیٰ سے ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔ “ (٣) وہ بندہ مومن جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اس کے پاس ایک مضبوط سہارا ہوتا ہے اور وہ ہے حق اور اللہ تعالیٰ پر توکل۔ اس مضبوط اور صاحب قوت ہستی سے صبر و ثبات اور نشاط طلب کئے جاتے ہیں۔ جبکہ باطل کے راستے میں لڑنے والے، جس کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ اس کا کوئی قابل تعریف انجام ہے یہ صبر و ثبات کہیں سے طلب نہیں کرسکتے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا ﴾’’تم شیطان کے مددگاروں سے لڑو یقیناً شیطان کا داؤ کمزور ہوتا ہے۔“ (کید) سے مراد وہ خفیہ چال ہے جس کے ذریعے سے دشمن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ شیطان کی چال خواہ کتنی ہی خطرناک کیوں نہ ہو، بہرحال وہ انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ حق کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ نہ وہ اس چال کے سامنے کھڑی رہ سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے لیے چلتا ہے۔