أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَّجْمَعَ عِظَامَهُ
کیا انسان گمان کرتا ہے کہ بے شک ہم کبھی اس کی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے۔
پس اللہ تعالیٰ نے جزا کی قسم، جزا پر قسم اور مستحق جزا کو جمع کردیا، پھر اس کے ساتھ ساتھ آگاہ فرمایا کہ بعض معاندین قیامت کے دن کو جھٹلاتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَہٗ﴾ ” کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے؟“ یعنی مرنے کے بعد جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ﴾( یٰس:36؍78) ” کہنے لگا : جب ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی تو ان کو کون زندگی عطا کرے گا؟ “ پس اپنی جہالت اور عدوان کی بنا پر اس نے اللہ تعالیٰ کے ہڈیوں کی تخلیق پر، جو کہ بدن کا سہارا ہیں ، قادر ہونے کو بہت بعید سمجھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کا رد کیا : ﴿بَلَىٰ قَادِرِينَ عَلَىٰ أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ﴾۔ ”کیوں نہیں ! ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کریں ۔ “ مراد ہے اس کی انگلیوں کی اطراف اور اس کی ہڈیاں اور یہ بدن کے تمام اجزا کی تخلیق کو مستلزم ہے، کیونکہ جب انگلیوں کے اطراف اور پورو جود میں آگئے تو مکمل جسد کی تخلیق ہوگئی۔ اس کا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کرنا کسی دلیل پر منحصر نہیں جو اس پر دلالت کرتی ہو، یہ بات تو اس سے صرف اس بنا پر صادر ہوئی ہے کہ اس کا ارادہ اور قصد قیامت کے دن کو جھٹلانا ہے جو اس کے سامنے ہے ۔ یہاں (فُجُورٌ) کا معنی جان بوجھ کر جھوٹ بولنا ہے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کے احوال کا ذکر کیا۔