إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا
بے شک تو اگر انھیں چھوڑے رکھے گا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور کسی نافرمان، سخت منکر کے سوا کسی کو نہیں جنیں گے۔
چنانچہ فرمایا : ﴿إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا ﴾ ” اگر تو ان کو رہنے دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان سے جو اولاد ہوگی وہ بھی ناشکرگزار ہوگی۔“ یعنی ان کا باقی رہنا، خود ان کے لیے اور دوسروں کے لیے محض فساد کا باعث ہوگا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے یہ بات اس لیے کہی تھی کیونکہ ان کے ساتھ کثرت اختلاط اور ان کے اخلاق سے واسطہ ہونے کی بنا پر آپ کو ان کے اعمال کا نتیجہ معلوم تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی دعا قبول فرما لی۔ پس اللہ نے ان سب کو غرق کردیا اور حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھ جو اہل ایمان تھے ان سب کو بچا لیا۔