سورة النسآء - آیت 51

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا، وہ بتوں اور باطل معبود پر ایمان لاتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ان سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں جو ایمان لائے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ یہودیوں کی برائیوں اور رسول اللہ اور اہل ایمان کے ساتھ ان کے حسد کا ذکر ہے۔ ان کے رذیل اخلاق اور خبیث طبیعتوں نے انہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان ترک کرنے پر آمادہ کیا اور اس کے عوض ان کو بتوں اور طاغوت پر ایمان لانے کی ترغیب دی۔ طاغوت پر ایمان لانے سے مراد ہر غیر اللہ کی عبادت یا شریعت کے بغیر کسی اور قانون کی بنیاد پر فصلہ کرنا ہے۔ اس میں جادو، ٹونہ، کہانت، غیر اللہ کی عبادت اور شیطان کی اطاعت وغیرہ سب شامل ہیں اور یہ سب بت اور طاغوت ہیں۔ اسی طرح ان کے کفر اور حسد نے ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ کفار اور بت پرستوں کے طریقہ کو اہل ایمان کے طریقہ پر ترجیح دیں۔﴿وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا﴾” اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں۔“ یعنی کفار کی خوشامد اور مداہنت کی خاطر اور ایمان سے بغض کی وجہ سے کہتے تھے :﴿هَـٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا﴾ ”طریقے کے اعتبار سے یہ کفار اہل ایمان سے زیادہ راہ ہدیات پر ہیں۔“ وہ کتنے قبیح ہیں، ان کا عناد کتنا شدید اور ان کی عقل کتنی کم ہے؟ وہ مذمت کی وادی میں، ہلاکت کے راستے پر کیسے گامزن ہیں؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات کسی عقلمند کو قائل کرلے گی یا کسی جاہل کی عقل میں آجائے گی؟ کیا اس دین کو جو بتوں اور پتھروں کی عبادت کی بنیاد پر قائم ہے، جو طیبات کو حرام ٹھہرائے، خبائث کو حلال ٹھہرانے، بہت سی محرمات کو جائز قرار دینے، اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر ظلم کے ضابطوں کو قائم کرنے، خالق کو مخلوق کے برابر قرار دینے، اللہ، اس کے رسول اور اس کی کتابوں کے ساتھ کفر کرنے کو درست گردانتا ہے۔۔۔ اس دنیا پر فضیلت دی جاسکتی ہے جو اللہ رحمٰن کی عبادت، کھلے چھپے اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص، بتوں اور جھوٹے خداؤں کے انکار، صلہ رحمی، تمام مخلوق حتیٰ کہ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک، لوگوں کے درمیان عدل کے قیام، ہر خبیث چیز اور ظلم کی تحریم اور تمام اقوال و اعمال میں صدق پر مبنی ہے؟۔۔۔۔۔۔ کیا یہ تفصیل محض ہذیان نہیں؟