سورة المعارج - آیت 3

مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ کی طرف سے، جو سیڑھیوں والا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

چنانچہ فرمایا :﴿ذِي الْمَعَارِجِ تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ ﴾۔ یعنی وہ بلندی، جلال اور عظمت کا مالک ہے، تمام مخلوقات کی تدبیر اسی کے ہاتھ میں ہے جس کی طرف اس چیز کے ساتھ فرشتے عروج کرتے ہیں جس کی تدبیر پر انہیں مقرر کیا ہے اور اس کی طرف روح بلند ہوتی ہے۔ یہ اسم جنس ہے جو تمام ارواح کو شامل ہے، خواہ نیک ہوں یابد، اللہ تعالیٰ کی طرف ارواح کا بلند ہونا، وفات کے وقت ہے۔ نیک لوگوں کی ارواح اللہ تعالیٰ کی طرف عروج کرتی ہیں، انہیں ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف بلند ہونے کی اجازت دے دی جاتی ہے ، یہاں تک کہ ارواح اس آسمان پر پہنچ جاتی ہیں جس میں اللہ تعالیٰ ان کارب تشریف فرما ہے ، یہ ارواح اللہ تعالیٰ کے حضور تحیہ وسلام پیش کرتی ہیں ، اس کے قرب سے سرفراز ہوتی ہیں اور اس کے قرب سے خوشی اور سرور حاصل کرتی ہیں ، اللہ ٰ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ثنا واکرام بھلائی اور بڑائی حاصل ہوتی ہے۔ رہیں فساق وفجار کی ارواح تو وہ عروج کرتی ہیں جب وہ آسمان پر پہنچتی ہیں تو آنے کی اجازت طلب کرتی ہیں مگر ان کو اجازت نہیں دی جاتی اور ان کو زمین کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مسافت کا ذکر فرمایا جس کو طے کرکے فرشتے اور روح اللہ تعالیٰ کی طرف عروج کرتے ہیں، نیز یہ کہ وہ ان اسباب کے ذریعے سے ایک دن میں عروج کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آسان کیے ہیں اور اوپر چڑھنے میں ان کی لطافت ، خفت اور سرعت رفتار ان کی اعانت کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، عام عادی رفتار کے مطابق، یہ مسافت ابتدائے عروج سے لے کر اس حد تک جو ان کے لیے مقرر کی گئی ہے اور ملا اعلیٰ تک، پچاس ہزار برس کے برابر ہے۔ یہ عظیم بادشاہی، یہ وسیع کائنات، علوی، اور سفلی ، اس کی تخلیق اور تدبیر کا انتطام وہی بلند وبرتر کرتا ہے ۔ پس وہ ان کے ظاہری وباطنی احوال کا علم رکھتا ہے ، وہ ان کے ٹھکانے کو جانتا ہے اور اسے اس جگہ کا علم ہے جہاں ان کو سونپا جانا ہے ، اس نے اپنی رحمت ، احسان اور رزق ان تک پہنچایا ہے جو ان سب پر عام اور سب کو شامل ہے ۔ اس نے ان پر حکم قدری، حکم شرعی اور حکم جزائی کو جاری کیا۔ پس شدت ہے ان لوگوں کے لیے جو اس کی عظمت کے بارے میں جہالت کا شکار ہیں اور انہوں نے اس کی اس طرح قدر نہ کی جس طرح قدر کرنے کا حق ہے، پس انہوں نے عجز ثابت کرنے اور امتحان کے طور پر عذاب کے لیے جلدی مچائی۔۔۔۔۔ پاک ہے حلم اور درگزر کرنے والی ہستی جس نے ان کو ڈھیل دیے رکھی مگر ان کو مہمل نہیں چھوڑا ، انہوں نے اس کو اذیت پہنچائی مگر اس نے ان کے بارے میں صبر کیا، ان کو معاف کردیا اور ان کو رزق عطا کیا۔ یہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ایک احتمال ہے ، پس یہ عروج اور چڑھنا دنیا میں ہے کیونکہ آیت کریمہ کا پہلاسیاق اس پر دلالت کرتا ہے ۔ ایک احتمال یہ ہے کہ یہ قیامت کے دن ہوگا اور اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اپنے بندوں پر اپنی عظمت، جلال اور کبریائی ظاہر کرے گا جو اس کی معرفت کی سب سے بڑی دلیل ہے وہ فرشتوں اور ارواح کو تدابیر الٰہیہ اور امور ربانیہ کے ساتھ چڑھتے اترتے مشاہدہ کریں گے یہ اس روز ہوگا جس کا اندازہ اس کی لمبائی اور شدت کی بنا پر پچاس ہزار سال ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ مومنوں پر تخفیف فرمائے گا۔