سورة القلم - آیت 47

أَمْ عِندَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یا ان کے پاس غیب کا علم ہے، تو وہ لکھتے جاتے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ أَمْ عِندَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ ﴾ ان کے پاس غیب کا علم نہیں کہ وہ اس بات کو پاچکے ہوں کہ وہ حق پر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ثواب سے بہرہ ور ہوں گے، یہ معاملہ جیسا بھی ہے ،ان کا حال تو ایک معاند اور ظالم کا سا ہے ،پس اس کے سوا کچھ باقی نہیں کہ ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کیا جائے اور جو کچھ ان سے صادر ہو رہا ہے اس پر تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور ان کو بار بار دعوت دی جائے۔ اس لیے فرمایا : ﴿ فَاصْبِرْ لِحُكْمِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے شرعا اور قدرا جوفیصلہ کیا ہے اس پر صبر کیجئے ۔ حکم قدری یہ ہے کہ ایذا پر صبر کیا جائے ،اور ناراضی اور بے صبری کے ساتھ ان کا سامنا نہ کیا جائے ،حکم شرعی کو قبول کیا جائے ، اس کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے اور اس کے امر کی اطاعت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ ﴾ ” اور مچھلی والے کی طرح نہ ہونا“ اور وہ ہیں یونس بن متی علیہ السلام یعنی اس حال میں حضرت یونس علیہ السلام کی مشابہت اختیار نہ کیجئے جو حال مچھلی کے پیٹ میں ان کے محبوس ہونے کا باعث بنا اور وہ ہے اپنی قوم پر ان کا عدم صبر جو آپ سے مطلوب تھا اور اپنے رب سے ناراض ہو کر جانا حتیٰ کہ آپ کشتی میں سوار ہوئے، جب کشتی بوجھل ہوگئی تو کشتی والوں نے آپس میں قرعہ اندازی کی کہ کشتی کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ان میں سے کسی کو سمندر کے اندر پھینکا جائے۔ پس حضرت یونس علیہ السلام کے نام پر قرعہ پڑا ﴿ فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ ﴾( الصافات :37؍142) ” پس ان کو مچھلی نے نگل لیا اور وہ قابل ملامت کام کرنے والے تھے۔ “ ﴿ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ ﴾ یعنی انہوں نے پکارا جبکہ وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے اور ان پر دروازہ بند کردیا گیا تھا یا یہ کہ انہوں نے پکارا اور وہ ہم وغم سے لبریز تھے، چنانچہ کہا:﴿ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴾( الانبیاء :21؍87) ” تیرے سوا کوئی معبود نہیں ،تو پاک ہے ، بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔ “ اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی، چنانچہ مچھلی نے انہیں، جب کہ وہ بیمار تھے ، چٹیل میدان میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر کدو کی بیل اگا دی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا : ﴿ لَّوْلَا أَن تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِّن رَّبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ ﴾۔ ” اگر اس کے رب کی مہربانی ان کی یاوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیے جاتے۔“ یعنی انہیں چٹیل میدان میں ُپھینک دیا جاتا ( الْعَرَاءِ ) سے مراد(ہر قسم کی نباتات سے) خالی زمین ہے۔ ﴿ وَهُوَ مَذْمُومٌ ﴾۔” اور وہ برے حال میں ہوتے۔“ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے ڈھانپ دیا، ان کو اس حال میں پھینک دیا گیا کہ وہ ممدوح تھے اور ان کی یہ حالت پہلی حالت سے بہتر ہوگئی۔