يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ
جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور وہ سجدے کی طرف بلائے جائیں گے تو وہ طاقت نہیں رکھیں گے۔
یعنی جب قیامت کا دن ہوگا اور ایسے ایسے زلزلے اور ہولناکیاں ظاہر ہوں گی جو وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتیں، باری تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرنے اور ان کو جزا وسزا دینے کے لیے تشریف لائے گا، پس وہ اپنی مکرم پنڈلی کو ظاہر کرے گا جس سے کوئی چیز مشابہت نہیں رکھتی، لوگ اللہ تعالیٰ کا جلال اور عظمت دیکھیں گے جس کی تعبیر ممکن نہیں۔ یہی وہ وقت ہوگا جب ان کو سجدے کے لیے کہا جائے گا، مومن اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے جو (دنیا میں)اپنی مرضی اور اختیار سے سجدہ کیا کرتے تھے۔ منافق اور فاجر سجدہ کرنے کی کوشش کریں گے مگر وہ سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہوں گے ، ان کی کمریں ایسی ہوجائیں گی جیسے گائے کے سینگ جو جھک نہ سکیں گے۔ یہ جزا ان کے عمل کی جنس میں سے ہے کیونکہ دنیا کے اندر انہیں سجدے کرنے، توحید اور عبادت کے لیے بلایا جاتا، درآں حالیکہ وہ صحیح سلامت ہوتے تھے اور ان میں کوئی بیماری نہ ہوتی تھی تو وہ تکبر و استکبار سے سجدے سے انکار کردیتے تھے۔ اس دن ان کے حال اور برے انجام کے بارے میں مت پوچھ کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ ان پر سخت ناراض ہوگا، کلمہ عذاب ان پر حق ثابت ہوگا، ان کے تمام اسباب منقطع ہوجائیں گے اور قیامت کے روز ندامت اور اعتذار کوئی فائدہ نہ دیں گے ۔ پس اس آیت میں ایسی چیزوں کا بیان ہے جو قلوب کو گناہوں پر قائم رہنے سے ڈراتی ہیں اور مدت امکان کے اندر تدارک کی موجب ہیں ، لہذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یعنی چھوڑو مجھے : مجھے قرآن کو جھٹلانے والوں سے سمجھ لینے دو ، ان کی جزا میرے ذمے ہے ،ان کے لیے جلدی نہ مچا، پس ﴿ سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ ﴾۔ ” عنقریب ہم انہیں تدریج کیساتھ پکڑیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہوگا ۔“ہم انہیں مال اور اولاد کی کثرت سے بہرہ مند کرتے ہیں ،ہم ان کے رزق اور اعمال کو زیادہ کرتے ہیں تاکہ وہ فریب میں مبتلا رہیں اور ایسے کاموں پر جمے رہیں جو ان کو نقصان پہنچائیں گے ۔ یہ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی چال ہے اور اپنے دشمنوں کے خلاف اللہ تعالیٰ کی چال بہت مضبوط اور طاقت ور ہوتی ہے جو ان کو نقصان پہنچانے اور سزا دینے میں بہت کارگر ہے۔