أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ
انھیں وہاں سے رہائش دو جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق اور انھیں اس لیے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو اور اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو، یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کرلیں، پھر اگر وہ تمھارے لیے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو اور آپس میں اچھے طریقے سے مشورہ کرو اور اگر تم آپس میں تنگی کرو تو عنقریب اسے کوئی اور عورت دودھ پلا دے گی۔
پیچھے گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق یافتہ عورتوں کو گھروں سے نکالنے سے روکا ہے اور اس مقام پر اس نے طلاق یافتہ عورتوں کو سکونت مہیا کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کو معروف طریقے سے سکونت مہیا کرنا مقرر فرمایا اور اس سے مراد ایسا گھر ہے ،جس میں شوہر کی تونگری یا عسرت کے مطابق ان دونوں کے ہم مرتبہ لوگ رہتے ہیں۔ ﴿وَلَا تُضَارُّوْہُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْہِنَّ ﴾ یعنی ان کی سکونت کے دوران ان کو اپنے قول وفعل کے ذریعے سے، اس غرض سے تکلیف نہ پہنچاؤ کہ وہ عدت پوری ہونے سے پہلے تنگ آکر گھروں سے نکل جائیں، اس صورت میں تم ان کو اپنے گھروں سے نکالنے والے شمار ہو گے۔ آیت کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مطلقات کو گھروں سے نکالنے سے روکا ہے اور مطلقات کو بھی گھروں سے نکلنے سے منع کیا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح سکونت فراہم کرنے کا حکم دیا ہے کہ مطلقات کو کوئی ضرر اور مشقت لاحق نہ ہو اور یہ عرف عام کی طرف راجع ہے۔ ﴿وَاِنْ کُنَّ ﴾ ”اور اگر ہوںوہ۔“ یعنی مطلقات﴿ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْہِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ﴾”حمل والیاں ،تو وضع حمل تک ان پر خرچ کرو۔ “اگر طلاق بائنہ ہے تو یہ نان ونفقہ اس حمل کی وجہ سے ہے جو اس کے پیٹ میں ہے اور اگر طلاق رجعی ہے تو یہ نفقہ خود اس کے لیے اور اس کے حمل کے لیے ہے۔ نان ونفقے کی انتہا وضع حمل تک ہے۔ جب وضع حمل ہوجائے توہ اپنے بچوں کو دودھ پلائیں گی یا نہیں پلائیں گی؟ ﴿ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ ﴾ ”پس اگر وہ بچے کو تمہارے کہنے سے دودھ پلائیں تو ان کو ان کی اجرت دو۔ “یعنی طے شدہ اجرت اگر طے کی گئی ہے ورنہ وہ اجرت ادا کی جائے جو اس کے ہم مرتبہ لوگ ادا کرتے ہیں ﴿ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوْفٍ ﴾ یعنی میاں بیوی اور دیگر لوگ یک دوسرے کو معروف کا حکم دیں اور معروف سے مراد ہر وہ کام ہے جس میں دنیا وآخرت کی کوئی منفعت اور مصلحت ہو کیونکہ باہم ایک دوسرے کو معروف کی تلقین کرنے میں غفلت برتنے سے ضرر اور شرکا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ،نیزباہم معروف کا حکم دینے میں نیکی اور تقوے پر تعاون ہے۔ اس مقام پر اس بات کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اتمام عدت پر، مفارقت کے وقت شوہر اور بیوی کے درمیان ،خاص طور پر جب ان د ونوں کا مشترکہ بچہ ہو، غالب حالات میں بیوی اور بچے کے نفقے کے بارے میں جدائی کے ساتھ ساتھ تنازعہ اور جھگڑا واقع ہوجاتا ہے ،جدائی عموما بغض اور کینہ سے مقرون ہوتی ہے ،جس سے بہت سی چیزیں متاثر ہوتی ہیں، لہذا دونوں میں سے ہر ایک کو نیکی، حسن معاشرت، عدم مشقت اور عدم منازعت کا حکم دیا جائے اور ان امور میں خیر خواہی کی جائے ﴿ وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ﴾ ”اور اگر تم باہم ضد ( اور نااتفاقی)کرو۔“ یعنی اگر دونوں میاں بیوی اس امر پر متفق نہ ہوں کہ (مطلقہ) بیوی اپنے بچے کو دوھ پلائے ﴿فَسَتُرْضِعُ لَہٗٓ اُخْرٰی﴾ تو اس مطلقہ بیوی کے علاوہ کوئی دوسری عورت بچے کو دودھ پلائے۔ فرمایا: ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ ﴾(البقرۃ:2؍233) ”اگر تمہارا ارادہ کسی دوسری عورت سے دودھ پلوانے کا ہو ،تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، جب تم وہ اجرت معروف طریقے سے ادا کردو جو تم نے طے کی تھی۔“ یہ اس صورت میں ہے جب بچہ اپنی ماں کے علاوہ کسی دوسری عورت کا دودھ قبول کرتاہو، اگر بچہ اپنی ماں کے سوا کسی عورت کا دودھ قبول نہیں کرتا ہو،تو اس کی ماں رضاعت کے لیے متعین ہوگی اور ماں پر رضاعت واجب ہوگی اور اگر وہ دودھ پلانے سے انکار کرے تو اس کو دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا اور اگر دونوں میں اجرت پر اتفاق نہ ہوسکے تو اس کے لیے ہم مرتبہ دودھ پلانے والی کی اجرت ہے ۔یہ حکم اس آیت کریمہ کے معنی سے ماخوذ ہے کیونہ بچہ جب حمل کی مدت کے دوران میں اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور وہ تو باہر نہیں آسکتا، توا للہ تعالیٰ کی طرف سے بچے کے ولی پر نفقہ کی ادائیگی ضروری ہے اور جب بچہ متولد ہوجاتا ہے اور وہ خوراک اپنی ماں سے یا ماں کے علاوہ کسی دوسری عورت سے حاصل کرسکتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے دونوں صورتیں مباح کردی ہیں ۔چنانچہ بچہ اگر ایسی حالت میں ہو کہ وہ اپنی ماں کے سوا کہیں سے خوراک نہ لیتا ہوں تو وہ بمنزلہ حمل کے ہے اور اس کی خوراک کے لیے اس کی ماں ہی کو مقرر کیا جائے گا۔