سورة المنافقون - آیت 4

وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب تو انھیں دیکھے تجھے ان کے جسم اچھے لگیں گے اور اگر وہ بات کریں تو تو ان کی بات پر کان لگائے گا، گو یا وہ ٹیک لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں، ہر بلند آواز کو اپنے خلاف گمان کرتے ہیں۔ یہی اصل دشمن ہیں، پس ان سے ہوشیار رہ۔ اللہ انھیں ہلاک کر ے، کہاں بہکائے جا رہے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَاِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ﴾ ”اور جب آپ انہیں دیکھتے ہیں تو ان کے جسم آپ کو اچھے معلوم ہوتے ہیں“۔ یعنی ان کی خوشنمائی اور تروتازگی کی وجہ سے ﴿ وَاِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ﴾ یعن آپ ان کے حسن کلام کی وجہ سے ان کی باتوں کو سن کر لذت حاصل کرتے ہیں ۔پس ان کے اقوال اور اجسام بہت اچھے لگتے ہیں مگر ان کے پیچھے اخلاق فاضلہ ہیں نہ اچھا لائحہ عمل، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ﴾ ”گویا کہ وہ لکڑیاں ہیں جو دیوار سے لگائی گئی ہیں۔“ جن میں کوئی منفعت نہیں ہوتی اور ان سے صرف نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ﴿یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ ﴾ ”وہ ہر زور کی آواز کو سمجھتے ہیں کہ انہی پر (بلا آئی) ہے۔“ اور یہ ان کی بزدلی ،خوف، دلی کمزوری اور دلوں میں شکوک وشبہات کے سبب سے ہے ۔وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ان باتوں کا پتہ نہ چل جائے ۔یہی لوگ ہیں ﴿ هُمُ الْعَدُوُّ﴾ جو حقیقی دشمن ہیں کیونکہ ظاہر اور پہچانا ہوا دشمن اس دشمن کی نسبت کم نقصان دہ ہے جس کے بارے میں معلوم نہ ہو ،وہ دھوکے باز اور چالاک ہو اور وہ یہ ظاہر کرتا ہو کہ وہ دوست ہے، حالانکہ وہ وہ کھلا دشمن ہے۔ ﴿فَاحْذَرْہُمْ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ﴾”پس آپ ان سے بچیں ،اللہ انہیں ہلاک کرے، یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں؟“ دین اسلام کے دلائل واضح جانے اور اس کے کارنامے نمایاں ہوجانے کے بعد بھی دین اسلام کو چھوڑکر کفر کی طرف کیسے مائل ہورہے ہیں جو انہیں خسارے اور بدبختی کے سوا کچھ نہیں دیتا ؟