يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
وہ تمھیں تمھارے گناہ معاف کردے گا اور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں اور رہنے کی پاکیزہ جگہوں میں، جو ہمیشہ رہنے کے باغوں میں ہیں، یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
اس میں اخروی بھلائی بھی ہے، یعنی اللہ کے ثواب کے حصول اور اس کی سزا سے نجات کے حصول میں کامیابی، چنانچہ فرمایا :﴿یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ﴾ ”اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرمادے گا ۔“اور یہ تمام صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کو شامل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور جہاد تمام گناہوں کو مٹا دیتے ہیں خواہ کبیر ہی کیوں نہ ہوں۔ ﴿وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ﴾ ”اور وہ تمہیں ان جنتوں میں پہنچائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ۔“یعنی اس کے مساکن، اس کے محلات ،اس کے بالاخانوں اور اس کے درختوں کے نیچے ایسے پانی کی نہریں بہہ رہی ہوں گی جس میں بونہ ہوگی ،ایسے دودھ کی نہریں جاری ہوں گی جس کا ذائقہ متغیر نہ ہوگا ،ایسی شراب کی نہریں ہوں گی جو پینے والوں کو لذت دے گی اور خالص شہد کی نہریں ہوں گی اور جنت کے اندر ان کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں گے۔ ﴿وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ﴾ یعنی جنت میں ہر اچھی چیز جمع ہوگی ،بلندی، ارتفاع، عمارتوں کی خوبصورتی اور سجاوٹ، حتی کہ اہل علیین کو دیگر اہل جنت اس طرح دیکھیں گے جیسے مشرقی یا مغربی افق میں چمک دار ستاہ دیکھا جاتا ہے حتی کہ جنت کی( عمارتوں کی )تعمیر کی کچھ اینٹیں سونے کی ہوں گی کچھ چاندی کی ،اس کے خیموں میں موتی اور مرجان جڑے ہوئے ہوں گے ،جنت کے بعض گھر زمرد اور بہترین رنگوں کے جواہرات کے بنے ہوئے ہوں گے ،حتی کہ ان کے صاف وشفاف ہونے کی وجہ سے ان کے اندر سے بیرونی اور باہر سے اندرونی حصہ صاف نظر آئے گا ۔جنت کے اندر خوشبو اور ایسا حسن سلوک ہوگا کہ وصف بیان کرنے والے اس کا وصف بیان کرسکتے ہیں نہ اس کا تصور دنیا میں کسی شخص کے دل میں آیا ہے ۔ان کے لیے ممکن نہیں کہ اسے پاسکیں جب تک کہ اسے دیکھ نہ لیں ،وہ اس کے حسن سے متمتع ہوں گے اور اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں گے۔ اس حالت میں اگر اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کو کامل زندگی عطا نہ کی ہوتی ،جو موت کو قبول نہیں کرتی ،تو ہوسکتا ہے وہ خوشی سے مرجاتے ،البتہ پاک ہے وہ ذات کہ اس کی مخلوق میں سے کوئی ہستی اس کی ثنا بیان نہیں کرسکتی بلکہ وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے خود اپنی ثنا بیان کی ہے، وہ اس حمد وثنا سے بہت بڑھ کر ہے جو اس کی مخلوق میں سے کوئی بیان کرتا ہے۔ بہت بابرکت ہے ،وہ جلیل وجمیل ہستی جس نے نعمتوں کے گھر جنت کو تخلیق فرمایا، اس کو ایسا جلال وجمال عطا کیا جو مخلوق کی عقلوں کو مبہوت اور ان کے دلوں کو جکڑ لیتا ہے ۔بالا وبرتر ہے وہ ذات جو کامل حکمت کی مالک ہے ۔یہ اس کی حکمت ہی ہے کہ اگر بندے جنت اور اس کی نعمتوں کو دیکھ لیں ،تو اس کو حاصل کرنے سے کوئی پیچھے نہ رہے اور انہیں دنیا کی ناخوشگوار اور مکدر زندگی کبھی اچھی نہ لگتی ،جس کی نعمتوں میں درد الم اور جس کی فرحتوں میں رنج وغم کی ملاوٹ ہے۔ اس کو (جنت عدن )اس لیے کہا گیا ہے کہ اہل جنت اس میں ہمیشہ مقیم رہیں گے اور اس سے کبھی نکلیں گے نہ اس سے منتقل ہونا چاہیں ۔گے یہ ثواب جزیل اور اجر جمیل ہی درحقیقت بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس جیسی کوئی اور کامیابی نہیں یہ ہے اخروی ثواب۔ رہا اس تجارت کا دنیوی اجر وثواب، تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے اس ارشاد میں ذکر فرمایا ہے: ﴿وَّاُخْرٰی تُحِبُّوْنَہَا ﴾ یعنی تمہیں ایک اور چیز حاصل ہوگی جسے تم پسند کرتے ہو اور وہ ہے ﴿نَصْرٌ مِّنَ اللّٰـهِ﴾ دشمن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ فتح ونصرت جس سے عزت وفرحت حاصل ہوتی ہے ﴿وَفَتْحٌ قَرِيبٌ ﴾ ”اور جلد فتح یابی۔“ جس سے اسلام کا دائرہ وسیع ہوگا اور وسیع رزق حاصل ہوگا ،یہ مومن مجاہدوں کی جزا ہے۔ رہے وہ مومنین جو جہاد نہیں کررہے۔ جب ان کے علاوہ دوسرے لوگ فریضہ جہادادا کررہے ہوں تو اللہ تعالیٰ نے جہاد میں شریک نہ ہونے والے مومنوں کو بھی اپنے فضل واحسان سے مایوس نہیں کیابلکہ فرمایا :﴿وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ یعنی مومنوں کو دنیاوی اور اخروی ثواب کی بشارت دے دو، اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کے درجے کو تو نہیں پہنچ سکتے تاہم ہر شخص کو اس کے ایمان کے مطابق ثواب ملے گا جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”بلاشبہ جنت میں سودرجات ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیا ہے۔“(صحیح البخاری‘الجھاد والسیر‘باب درجات المجاھدین فی سبیل الله‘حدیث:2790 )