هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے، اگرچہ مشرک لوگ ناپسند کریں۔
پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے دین اسلام کے حسی اور معنوی غلبے اور فتح و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی﴾ ”وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت کے ساتھ بھیجا۔“ یعنی اس نے اپنا رسول علم نافع اور عمل صالح کے ساتھ مبعوث کیا۔ علم سے مراد وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے تکریم والے گھر کی طرف راہنمائی کرتا ہے، جو بہترین اعمال واخلاق سکھاتا ہے اور جو دنیا وآخرت کے تمام مصالح کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ ﴿ وَدِیْنِ الْحَقِّ﴾”اور دین حق کے ساتھ۔“ یعنی وہ دین جسے اختیار کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے سے رب کائنات کی بندگی کی جاتی ہے ،جو سراسر حق اور صدق ہے ،جس میں کوئی نقص ہے نہ اسے کوئی خلل لاحق ہے، جس کے اوامر قلب وروح کی غذا اور جسم کی راحت ہیں اور اس کے نواہی کو ترک کرنا شر اور فساد سے سلامتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے وہ آپ کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل اور برہان ہے اور جب تک دنیاباقی ہے یہ دلیل باقی رہے گی ،خرد مند جتنا زیادہ اس میں غوروفکر کرے گا اتنی ہی اسے فرحت وبصیرت حاصل ہوگی ۔﴿ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ﴾ تاکہ وہ اس دین کو حجت اور دلیل کے ذریعے سے تمام ادیان پر اور اہل دین کو، جو اس پر قائم ہیں، شمشیر وسناں کے ذریعے سے (باطل قوتوں پر )غالب کردے۔ رہا دین ،تو یہ غلبہ ہر زمانے میں اس کا وصف لازم رہا ہے ،چنانچہ کوئی غالب آنے کی کوشش کرنے والا اس پر غالب آسکتا ہے نہ جھگڑنے والا اس کو زیر کرسکتا ہے۔ دین ہمیشہ فتح مند ہی رہے گا، اسی کو فوقیت اور غلبہ حاصل رہے گا۔ رہے وہ لوگ جو دین اسلام سے انتساب رکھتے ہیں تو جب وہ اس دین کو قائم کریں گے، اس کے نور سے روشنی حاصل کریں، اپنے دینی اور دنیاوی مصالح میں اس کے لائحہ عمل کوراہ نمابنائیں ،تو اس طرح کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور ان کا تمام اہل ادیان پر غالب آنا لازمی ہے اور اگر وہ اس دین کو ضائع کردیں اور اس کے ساتھ مجردا نتساب ہی کو کافی سمجھیں ،تو دین ان کو کوئی فائدہ نہیں دے گا اور ان کا دین کو چھوڑ دینا ان پر دشمن کے تسلط کا سبب بنے گا۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں اور متاخرین کے احوال کے اسقراء اور ان میں غوروفکر کے ذریعے سے اس حقیقت کی معرفت حاصل کی جاسکتی ہے۔