يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تمھارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کی جانچ پڑتال کرو، اللہ ان کے ایمان کو زیادہ جاننے والا ہے۔ پھر اگر تم جان لو کہ وہ مومن ہیں تو انھیں کفار کی طرف واپس نہ کرو، نہ یہ عورتیں ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ (کافر) ان کے لیے حلال ہوں گے۔ اور انھیں دے دو جو انھوں نے خرچ کیا ہے اور تم پر کوئی گناہ نہیں کہ ان سے نکاح کرلو، جب انھیں ان کے مہر دے دو۔ اور کافر عورتوں کی عصمتیں روک کر نہ رکھو اور تم مانگ لو جو تم نے خرچ کیا ہے اور وہ (کفار) مانگ لیں جو انھوں نے خرچ کیا ہے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے، وہ تمھارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
صلح حدیبیہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کے ساتھ اس شرط پر معاہدہ کیا کہ کفار میں سے جو کوئی مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آئے تو وہ مشرکین کو واپس کردیا جائے گا۔ یہ عام اور مطلق لفظ تھا جس کے عموم میں مرد اور عورت سب شامل ہیں۔ مردوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ایفائے شرط اور معاہدہ صلح کو پورا کرنے کے لیے کفار کی طرف واپس لوٹانے سے اپنے رسول کو منع نہیں کیا، جو سب سے بڑی مصلحت تھی۔ رہی عورتیں، تو چونکہ ان کے واپس لوٹانے میں بہت سے مفاسد تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ جب مومن عورتیں ہجرت کرکے ان کے پاس آئیں اور ان کو ان عورتوں کے ایمان کی صداقت میں شک ہو، تو سخت قسم وغیرہ کے ذریعے سے ان کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیا کریں، تاکہ ان کی صداقت ظاہر ہوجائے ،کیونکہ اس بات کا احتمال ہوسکتا ہے کہ ان کے ایمان میں صداقت نہ ہو ،بلکہ شوہر یا شہر وغیرہ دنیاوی مقاصد کے لیے ہجرت کی ہو، اگر ان میں یہ وصف پایا جائے، تو ایفائے شرط کے لیے کسی خرابی کے حصول کے بغیر ان کا واپس کیا جانا طے شدہ ہے ۔اگر اہل ایمان نے ان کو جانچ لیا اور ان کو سچا پایا ہو یا جانچ پڑتال کے بغیر ہی اہل ایمان کو ان کے مومن ہونے کا علم ہو، تو وہ ان عورتوں کو کفار کی طرف واپس نہ بھیجیں۔ ﴿لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّوْنَ لَہُنَّ ﴾”یہ (عورتیں)ان (کافروں) کے لیے حلال ہیں نہ وہ(کافر) ان کے لیے۔“ یہ بہت بڑی خرابی ہے، جس کی شارع نے رعایت رکھی ہے ۔شارع نے ایفائے شرط کی بھی رعایت رکھی کہ ان عورتوں کے عوض میں ان کے کفار شوہروں کو وہ مہر اور اس کے توابع وغیرہ واپس لوٹا دیے جائیں جو انہوں نے ان عورتوں پر خرچ کیے ہیں۔ تب مسلمانوں کے لیے ان عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں، خواہ دارالشرک میں ان کے (مشرک) شوہر موجود ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ ان عورتوں کو مہر اور نان ونفقہ ادا کریں۔ جس طرح مسلمان عورت کافر کے لیے حلال نہیں اسی طرح اہل کتاب کے سوا کافر عورت، جب تک وہ اپنے کفر پر قائم ہے، مسلمان مرد کے لیے حلال نہیں۔ اس لیے فرمایا :﴿ وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ﴾”اور تم کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں نہ رکھو۔ “جب اللہ تعالیٰ نے کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں رکھنے سے منع کیا ہے، تب ان کے ساتھ نکاح کی ابتدا تو بدرجہ اولیٰ ممنوع ہے ﴿ وَاسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ﴾ اے مومنو! جب تمہاری مرتد بیویاں کفار کی طرف واپس لوٹیں تو ان سے اس مال کا مطالبہ کرو جو تم نے ان پر خرچ کیا ہے۔ جب کفار اپنی ان عورتوں کو عطا کیا ہوا مہر وصول کرسکتے ہیں جو مسلمان ہوگئی ہوں، تو اس کے مقابلے میں مسلمان بھی اس مہر کو وصول کرنے کے مستحق ہیں جو ان کی مرتد بیویوں کے ساتھ کفار کے پاس گیا ہے ۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا اپنے شوہر کی زوجیت سے نکلنا قیمت رکھتا ہے ،اگر کوئی فاسد کرنے والا عورت کے نکاح کو، رضاعت یاکسی اور سبب کی بنا پر فاسد کردے تو اس کے مہر کی ضمان ہے، یعنی مہر کی ادائیگی ضروری ہے ﴿ ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِ ﴾ یعنی یہ فیصلہ ،جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے ،اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جو اس نے تمہارے سامنے بیان کرکے واضح کیا ہے۔ ﴿ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ﴾ ”اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے۔“ لہٰذا اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون سے احکام تمہارے لیے درست ہیں، لہٰذا وہ اپنی حکمت اور رحمت کے مطابق اپنے احکام مشروع کرتا ہے۔