كَمَثَلِ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَرِيبًا ۖ ذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
ان لوگوں کے حال کی طرح جو ان سے پہلے قریب ہی تھے، انھوں نے اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔
ان لوگوں کی مدد کا معدوم ہونا جنہوں نے ان کے ساتھ معاونت کا وعدہ کیا تھا ﴿کَمَثَلِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ قَرِیْبًا﴾ ”ان کا حال ان لوگ کا سا ہے جو ان سے کچھ ہی پیشتر ہوئے۔“ اس سے مراد وہ قریش ہی،ں جن کے اعمال کو شیطان نے مزین کیا اور کہا: ﴿ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ﴾( الانفال:8؍48) آج لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا ،اور میں تمہارا ساتھی ہوں، جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو الٹے پاؤں بھاگ نکلا اور کہنے لگا: میں تم سے بری الذمہ ہوں، میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے۔“ چنانچہ انہوں نے خود اپنے آپ کو فریب دیا اور ان کو فریب دینے والوں نے بھی فریب دیا جو ان کے کام آسکے نہ ان سے عذاب کو دور کرسکے حتی کہ وہ بڑے فخر اور بڑے کرو فر سے ”بدر“ کے مقام پر پہنچ گئے، وہ سمجھتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو جالیں گے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کی مدد کی، چنانچہ ان کے بڑے بڑے سردار قتل کردیے گئے ،ان میں سے کچھ کو قیدی بنا لیا گیا اور کچھ فرار ہوگئے ۔اس طرح ﴿ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِہِمْ ﴾ انہوں نے اپنے شرک اور بغاوت کے وبال کا مزا چکھ لیا۔ یہ سزا دنیا کے اندر ہے ﴿ وَلَهُمْ ﴾ اور آخرت میں ان کے لیے ﴿ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ دردناک عذاب ہے۔