وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے، اے ہمارے رب ! یقیناً تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
﴿وَالَّذِیْنَ جَاءُوْ مِنْ بَعْدِہِمْ﴾ یعنی جو (اہل ایمان )مہاجرین وانصار کے بعد آئے ﴿ یَقُوْلُوْنَ﴾ وہ اپنی اور تمام مومنین کی خیرخواہی کے لیے کہتے ہیں :﴿ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾ ”اے ہمارے پروردگار !ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں ۔“یہ دعا تمام گزرے ہوئے اہل ایمان، صحابہ ،ان سے پہلے اور ان کے بعد آنے والے تمام اہل ایمان کو شامل ہے۔ یہ ایمان کی فضیلت ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ایمان میں مشارکت کے سبب سے ایک دوسرے کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ایمان مومنین کے درمیان اخوت کا تقاضا کرتا ہے جس کی فروع میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے دعا کریں اور ایک دوسرے سے محبت کریں ،اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس دعا میں قلب سے کینے کی نفی کا ذکر فرمایا جو قلیل وکثیر ہر قسم کے کینے کو شامل ہے۔ جب کینے کی نفی ہوگئی تو اس کی ضد ثابت ہوگئی اور وہ ہے اہل ایمان کے مابین محبت وموالات اور خیرخواہی وغیرہ جو اہل ایمان کے حقوق شمار ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد آنے والوں کو ایمان کے وصف سے موصوف کیا ہے کیونکہ ان کا قول: ﴿سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾ ایمان میں ان کی مشارکت پر دلالت کرتا ہے، نیز اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ عقائد ،ایمان اور اس کے اصول میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرنے والے ہیں اور وہ اہل سنت والجماعت ہیں کیونکہ یہ وصف تام صرف انہی پر صادق آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو گناہوں کے اقرار اور پھر ان گناہوں سے استغفار کے ساتھ موصوف کیا ہے نیز یہ کہ وہ ایک دوسرے کے لیے استغفار کرتے ہیں اور مومن بھائیوں کے خلاف کینہ اور حسد کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،کیونکہ ان کا اس چیز کی دعا کرنا، ان امور کو مستلزم ہے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اور ان کے ایک دوسرے سے محبت کرنے کو مستلزم ہے اور اس امر کو بھی مستلزم ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ،اس کی موجودگی اور عدم موجودگی میں ،اس کی زندگی میں اور اس کے مرنے کے بعد اس کی خیرخواہی کرے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ یہ سب کچھ اہل ایمان کے ایک دوسرے پر جملہ حقوق ہیں، پھر انہوں نے اپنی دعا کو اللہ کے دو اسمائے کریمہ پر ختم کیا جو اللہ تعالیٰ کے کمال رحمت اور شدت رأفت واحسان پر دلالت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے جملہ احسانات میں سے بلکہ ان میں سے سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ان کو اپنے حقوق اور اپنے بندوں کے حقوق قائم کرنے کی توفیق سے بہرہ ور کیا۔ یہ تین اوصناف کے لوگ اسی امت کے لوگ ہیں جو فے کے مستحق ہیں جس کا مصرف اسلام کے مصالح کی طرف راجع ہے اور وہی لوگ اس کی اہلیت رکھتے ہیں جو اس کے اہل ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمیں بھی ان میں شامل کرے۔