سورة المجادلة - آیت 10

إِنَّمَا النَّجْوَىٰ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيْسَ بِضَارِّهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یہ سرگوشی تو شیطان ہی کی طرف سے ہے، تاکہ وہ ان لوگوں کو غم میں مبتلا کرے جو ایمان لائے، حالانکہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر انھیں ہرگز کوئی نقصان پہنچانے والا نہیں اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ مومن بھروسا کریں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اِنَّمَا النَّجْوٰی﴾ یعنی مومنوں کے دشمن ان کے بارے میں سازش، دھوکے اور بری خواہشات کی جو سرگوشیاں کرتے ہیں﴿مِنَ الشَّیْطٰنِ﴾ یہ شیطان کی طرف سے ہیں جس کی چل بہت کمزور اورمکر غیر مفید ہے۔ ﴿ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ”تاکہ وہ ایمان والوں کو غم زدہ کرے۔ “اور اس مکروفریب سے اس کا مقصود بھی یہی ہے۔ ﴿وَلَیْسَ بِضَارِّہِمْ شَـیْـــــًٔا اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾ ”اور اللہ کے حکم کے بغیر ان سے انہیں کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ کفایت اور دشمن کے خلاف فتح ونصرت کا وعدہ کر رکھا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے: ﴿ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ﴾( فاطر:35؍43)”اور بری چال کا وبال چال چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔“ پس اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول اور اہل ایمان کے دشمن جب کبھی (اہل ایمان کے خلاف )سازش کرتے ہیں تو اس کا ضرر ان ہی کی طرف لوٹتا ہے،اہل ایمان کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا سوائے کسی ایسے ضرر کے جسے اللہ تعالیٰ نے ان کی تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔ ﴿ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ یعنی مومن اسی پر اعتماد کریں اور اس کے وعدے پر بھروسا کریں کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دشمنوں کی سازشیوں کے مقابلے میں، نیز اس کے دین ودنیا کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔