تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے وہ اسے جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
یہ تفاصیل جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے میراث کے ضمن میں کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں جن پر رکنا، ان سے تجاوز نہ کرنا اور ان میں کوتاہی سے بچنا فرض ہے اور اس میں امر کی دلیل ہے کہ وارث کے لیے وصیت منسوخ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام ورثاء کے حصے مقرر کردیئے ہیں اور اس کے بعد فرمایا : ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ﴾ ” یہ اللہ کی حدیں ہیں“ بنا بریں وارث کے لیے اس کے حق سے زیادہ وصیت کرنا (منع کردہ) تجاوز میں داخل ہے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (لاوصیۃ لوارث) [جامع الترمذی، الوصایا، باب ماجاء لا وصیة لوارث،ح:2120، 2121] ” کسی وارث کے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں“ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے عمومی طور پر اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا اور نافرمانی سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ اس عمومی اطاعت کے حکم میں فرائض (وراثت) کی حدود کا التزام اور اس سے تجاوز نہ کرنا بھی شامل ہوجائے۔ فرمایا : ﴿وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ﴾ ” اور جو اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کو بجا لا کر، جس میں سب سے بڑی چیز توحید میں ان کی اطاعت کرنا ہے، پھر اوامر میں ان کے درجات کے مطابق اطاعت کرنا اور ان کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا ہے، جن میں سب سے بڑا ممنوع اللہ کے ساتھ شرک ہے، پھر دوسرے معاصی ہیں، ان کی درجہ بندی کے ساتھ۔ ﴿يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا﴾ ” اے اللہ باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے“ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرتا ہے اور منہیات سے بچتا ہے وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا اور اسے جہنم سے نجات ملے گی۔ ﴿وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ ” یہی وہ بڑی کامیابی ہے“ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات کے حصول کی ضمانت ہے اور اسی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رضا، اس کے ثواب اور اس کی دائمی نعمتوں سے بہرہ ور ہوا جاسکتا ہے جن کا وصف کوئی بیان نہیں کرسکتا۔