إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا
بے شک جو لوگ یتیموں کے اموال ظلم سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ کے سوا کچھ نہیں کھاتے اور وہ عنقریب بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔
چنانچہ فرمایا :﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا ﴾ ” جو لوگ ناحق یتیموں کا مال کھاتے ہیں۔“ اس ” ناحق“ کی قید سے وہ نادار سرپرست نکل گئے جن کو معروف طریقے سے بقدر ضرورت ان کے مال میں سے کھانے کی اجازت ہے، اسی طرح وہ بھی اس سے خارج ہوگئے جو آسانی اور اصلاح کی نیت سے اپنا کھانا یتیموں کے کھانے کے ساتھ ملا لیتے ہیں، کیونکہ یہ بھی جائز ہے۔ پس جو کوئی ظلم سے یتیموں کا مال کھاتا ہے ﴿ يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ﴾ ” وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔“ یعنی انہوں نے یتیموں کا جو مال کھایا ہے وہ آگ ہے جو ان کے پیٹ میں بھڑکے گی، یہ آگ خود انہوں نے اپنے پیٹ میں داخل کی ہے ﴿وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ﴾ یعنی وہ عنقریب جلانے والی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ یہ سب سے بڑی وعید ہے جو گناہوں کے بارے میں سنائی گئی ہے جو یتیموں کا مال کھانے کی برائی اور قباحت پر دلالت کرتی ہے نیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یتیموں کا مال کھانا جہنم میں جانے کا موجب ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔