مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ ۚ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ
ایسے بستروں پر تکیہ لگائے ہوئے، جن کے استر موٹے ریشم کے ہیں اور دونوں باغوں کا پھل قریب ہے۔
﴿مُتَّکِــــِٕیْنَ عَلٰی فُرُشٍ بَطَایِٕنُہَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ ﴾ ’’وہ ایسی مسندوں پر تکیے لگائے(بیٹھے) ہوں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے۔‘‘ یہ اہل جنت کے بچھونوں اور ان بچھونوں پر ان کے بیٹھنے کا وصف ہے، نیز یہ کہ وہ تکیے لگائے ان بچھونوں پر بیٹھیں گے، یعنی ان کا بیٹھنا تمکنت، قرار اور راحت کا بیٹھنا ہوگا، جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھتے ہیں ان بچھونوں کا وصف اور حسن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا حتی کہ ان کے نیچے والے حصے جو زمین کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں، استبرق کے ہوں گے جو ریشم کی خوبصورت ترین اور اعلیٰ ترین قسم ہے تب ان بچھونوں کے ظاہری حصے جن پر بیٹھا جاتا ہے ان کی خوبصورتی کیسی ہوگی؟ ﴿وَجَنَا الْجَنَّـتَیْنِ دَانٍ﴾ ’’اور ان دونوں جنتوں کے پھل قریب ہی ہوں گے۔‘‘ اَلْجَنٰی سے مراد ہے پوری طرح پکا ہوا پھل، یعنی ان دو جنتوں کے پھل تناول کے لیے بہت قریب ہوں گے، کھڑا ہوا، بیٹھا ہوا حتی کہ لیٹا ہوا شخص اسے آسانی سے حاصل کرسکے گا۔