سورة الرحمن - آیت 29

يَسْأَلُهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اسی سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی اللہ تعالیٰ بذاتہ تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے وہ بے پایاں جودو کرم کا مالک ہے۔ تمام مخلوق اس کی محتاج ہے، وہ اس سے اپنی حوائج کے متعلق اپنے حال وقال کے ذریعے سے سوال کرتے ہیں۔ وہ لمحہ بھر بلکہ اس سے بھی کم وقت کے لیے اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتے اور اللہ تعالیٰ ﴿کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَاْنٍ﴾ ’’ہر روز (ہر وقت) ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔‘‘ یعنی وہ محتاج کو غنی کرتا ہے ٹوٹے ہوئے کو جوڑتا ہے کسی قوم کو عطا کرتا ہے کسی کو محروم کرتا ہے وہ موت دیتا اور زندگی عطا کرتا ہے، وہی کسی کو جھکاتا اور کسی کو بلند کرتا ہے، کوئی کام اسے کسی دوسرے کام سے غافل نہیں کرتا، مسائل اسے کسی غلطی میں مبتلا نہیں کرسکتے، مانگنے والوں کا اصرار کے ساتھ مانگنا اور سوال کرنے والوں کالمبا چوڑا سوال اسے زچ نہیں کرسکتا۔ پاک ہے وہ ذات جو فضل وکرم کی مالک اور بے حد وحساب عطا کرنے والی ہے، جس کی نوازشیں زمین اور آسمان والوں سب کے لیے عام ہیں اس کالطف وکرم ہر آن اور ہر لحظہ تمام مخلوق پر سایہ فگن ہے، نہایت بلند ہے وہ ہستی جس کو گناہ گاروں کا گناہ اور اس سے اور اس کے کرم سے ناواقف فقرا کا استغنا عطا کرنے سے روک نہیں سکتا۔ یہ تمام معاملات جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ ہر روز کام میں ہوتا ہے وہ تقادیر اور تدابیر ہیں، جن کو اس نے ازل میں مقدر کردیا، اللہ تبارک تعالیٰ ان کو ان اوقات میں جن کا تقاضا اس کی حکمت کرتی ہے، نافذ کرتا رہتا ہے، یہ اس کے احکام دینی ہیں جو اوامر ونواہی پر مشتمل ہیں اور یہ اس کے احکام کونی وقدری ہیں جن کو وہ اپنے بندوں پر اس وقت تک جاری کرتا رہے گا جب تک کہ ان کا قیام اس دنیا میں ہے۔ جب یہ مخلوقات تمام ہوجائے گی اور اللہ تعالیٰ سب کو فنا کردے گا اور وہ چاہے گا کہ ان پر کوئی احکام جزائی نافذ کرے، انہیں اپنے عدل وفضل اور بے پایاں احسانات کا مشاہدہ کرائے جن کے ذریعے سے وہ اسے پہچانتے ہیں، اس کی توحید بیان کرتے ہیں وہ مکلفین کو امتحان وابتلا کے گھر سے ہمیشہ کی زندگی والے گھر میں منتقل کرے گا، تب وہ ان احکام کو نافذ کرنے کے لیے فارغ ہوگا جن کی تنفیذ کا وقت آپہنچا ہے۔ اللہ کا درج ذیل ارشاد اسی بات پر دلالت کرتا ہے: