وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا
اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور گندی چیز کو اچھی چیز کے عوض بدل کر نہ لو اور نہ ان کے اموال اپنے مالوں سے ملا کر کھاؤ، یقیناً یہ ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔
اس سورۃ مبارکہ میں جن حقوق العباد کی تاکید کی گئی ہے، یہ ان میں سے پہلا حکم ہے اور وہ یتیم بچے ہیں جن کے باپ فوت ہوگئے ہیں جو ان کی کفالت کیا کرتے تھے۔ وہ بہت چھوٹے اور نہایت کمزور ہیں اپنے مصالح کی خود دیکھ بھال نہیں کرسکتے۔ بنا بریں اللہ رؤف و رحیم نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ان کے مال کے قریب نہ جائیں مگر بھلے طریقے سے اور جب یہ بالغ اور سمجھ دار ہوجائیں تو ان کا پورے کا پورا مال ان کے حوالے کردیں۔ ﴿وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ ﴾ ” اور بدل نہ لو خبیث مال کو“ خبیث سے مراد ناحق یتیم کا مال کھانا ہے ﴿بِالطَّيِّبِ ﴾ طیب مال سے مراد حلال مال ہے جس میں کوئی حرج ہے نہ تاوان ﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ﴾ یعنی ” تم اپنے اموال کے ساتھ ان کے اموال نہ کھاؤ۔ “ اس آیت کریمہ میں یتیموں کا مال کھانے کی قباحت پر دلیل ہے۔ اس حال میں جبکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے خود اس کے مال میں رزق عطا کیا ہوتا ہے اور وہ اپنے مال کی وجہ سے یتیم کے مال سے مستغنی ہوتا ہے اور جو کوئی اس حال میں یتیم کا مال کھانے کی جرأت کرتا ہے تو وہ بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے ﴿حُوبًا كَبِيرًا ﴾ یعنی گناہ عظیم اور بہت بڑا بوجھ۔ خبیث کو طیب سے بدلنا یہ ہے کہ یتیم کا سرپرست یتیم کا نفیس مال خود رکھ لے اور اس کے بدلے میں اپنا گھٹیا مال یتیم کو دے دے۔ اس آیت کریمہ میں یتیم کی سرپرستی کی دلیل ہے۔ کیونکہ یتیم کو اس کا مال حوالے کرنے والے کی سرپرستی ثابت ہوتی ہے۔ اس میں اس بات کا بھی حکم ہے کہ یتیم کے مال کی اصلاح کی جائے کیونکہ یتیم کو اس کا پورا مال حوالے کرنے کے حکم میں از خود یہ بات آجاتی ہے کہ اس مال کی حفاظت کی جائے اس کی اصلاح اور نشو و نما کا انتظام کیا جائے اور اس کو تلف ہونے کے خطرات سے بچایا جائے۔