أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ أُولَٰئِكُمْ أَمْ لَكُم بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ
کیا تمھارے کفار ان لوگوں سے بہتر ہیں، یا تمھارے لیے (پہلی) کتابوں میں کوئی چھٹکارا ہے؟
﴿ اَمْ لَکُمْ بَرَاءَۃٌ فِی الزُّبُرِ﴾ ’’یا تمہارے لیے (سابقہ )صحیفوں میں کوئی نجات لکھی ہوئی ہے؟‘‘ یعنی کیا اللہ نے ان کتابوں میں تمہارے ساتھ کوئی عہد اور میثاق کررکھا ہے جو گزشتہ انبیاء پر نازل ہوئی ہیں جن کی بنا پر تم یہ اعتقاد رکھتے ہو کہ تم اللہ کے وعدے اور اس کی خبر کی وجہ سے عذاب سے بچ جاؤ گے ؟ مگر یہ غیر واقع چیز ہے بلکہ یہ عقلاً اور شرعاً غیر ممکن امر ہے کہ ان کتب الٰہیہ میں ان کی برأت لکھ دی گئی ہو جو عدل وحکمت کو متضمن ہیں۔ یہ حکمت کے منافی ہے کہ ان جیسے معاندین حق کو نجات حاصل ہو جنہوں نے افضل الانبیا سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اللہ کے ہاں تمام انبیا سے بڑھ کر ہیں صاحب تکریم ہیں جھٹلایا پس اب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کے پاس کوئی قوت ہو جس سے وہ مدد حاصل کریں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ کہتے ہیں: ﴿ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَــصِرٌ﴾ ’’ہم غلبہ پانے والی جماعت ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوری کو بیان کرتے ہوئے اور اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے کہ وہ ہزیمت اٹھائیں گے، فرماتا ہے: ﴿سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ﴾’’عنقریب وہ جماعت شکست کھائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔‘‘ اللہ کا یہ ارشاد اسی طرح واقع ہوا ہے جس طرح اللہ نے خبر دی تھی پس اس نے ان کی بہت بڑی جماعت کو غزوہ بدر کے روز زبردست ہزیمت سے دوچار کیا ان کے بڑے بڑے بہادر اور ان کے سر کردہ سردار قتل ہو کر ذلیل خوار ہوئے۔ اللہ نے اپنے دین اپنے نبی اور اہل ایمان پر مشتمل اپنے گروہ کو فتح ونصرت سے سرفراز فرمایا۔ بایں ہمہ ان کے لیے ایک وقت مقرر ہے جب اللہ تعالیٰ ان کے اولین وآخرین جو دنیا میں مصائب میں مبتلا رہے اور جن کو دنیا کی لذتوں سے بہرور کیا گیا سب کو اکٹھا کرے گا۔ اس لیے فرمایا: ﴿بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ﴾ ’’بلکہ ان کے وعدے کا وقت قیامت ہے۔‘‘ اس وقت ان کو جزا دی جائے گی اور نہایت عدل وانصاف کے ساتھ ان سے حق لیا جائے گا۔ ﴿ وَالسَّاعَۃُ اَدْہٰی وَاَمَرُّ﴾ ’’اور قیامت کی گھڑی بہت بڑی آفت اور تلخ چیز ہے‘‘ یعنی بہت آفت زدہ، مشقت آمیز اور ہر اس چیز سے بڑھ کر ہے جس کا گمان کیا جاسکتا ہے یا وہ تصور میں آسکتی ہے۔