أَمْ عِندَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ
یا ان کے پاس غیب ہے؟ پس وہ لکھتے ہیں۔
﴿اَمْ عِنْدَہُمُ الْغَیْبُ فَہُمْ یَکْتُبُوْنَ﴾ یا غیب میں سے جو کچھ انہیں معلوم ہوتا ہے اسے لکھ لیتے ہیں، انہیں ان امور کی اطلاع ہوتی ہے جن کی اطلاع رسول اللہ کو نہیں ہوتی پس وہ اپنے علم غیب کے ذریعے سے آپ کا مقابلہ کرتے ہیں اور آپ سے عنادر کھتے ہیں ؟ حالانکہ یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ ان پڑھ جاہل اور گمراہ لوگ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی ہستی ہیں جن کے پاس دوسروں کی نسبت سب سے زیادہ علم ہے اور اللہ تعالیٰ نے جتنا آپ کو غیب کے علم سے آگاہ فرمایا اتنا اپنی مخلوق میں سے کسی کو عطا نہیں کیا۔ یہ سب ان کے قول کے فاسد ہونے پر عقلی اور نقلی طریقے سے الزامی دلیل ہے نیز نہایت احسن، نہایت واضح اور اعتراض سے محفوظ طریقے سے اس قول کے بطلان کی تصویر پیش کرتا ہے۔