أَفَسِحْرٌ هَٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ
تو کیا یہ جادو ہے، یا تم نہیں دیکھ رہے؟
﴿اَفَسِحْرٌ ھٰذَآ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَ ﴾’’کیا پھر یہ جادو ہے؟ یا تم دیکھتے ہی نہیں؟،، اس میں یہ احتمال ہے کہ اشارہ جہنم اور عذاب کی طرف ہوجیسا کہ آیات کا سیاق دلالت کرتا ہے یعنی جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو جھڑکنے کے انداز دیکھ نہیں سکتے یعنی تمہارے اندر کوئی بصیرت تھی نہ تم علم رکھتے تھے بلکہ تم اس معاملے میں بالکل جاہل تھے اور تم پر حجت قائم نہ ہوئی تھی اور جواب دونوں امور کی نفی ہے۔ رہا اس کا جادو ہونا تو تم پر یہ حقیقت پوری طرح واضح تھی کہ یہ سب سے بڑا حق اور سب سے بڑی سچائی ہے جو ہر لحاظ سے جادو کے منافی ہے۔ رہا ان کا (دنیا کے اندر) بصیرت سے محروم ہونا تو معاملہ اس کے برعکس ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوئی، انبیا ومرسلین نے ان کو ایمان کی طرف دعوت دی، ان پر دلائل وبراہین قائم کیے جنہوں نے اسے سب سے بڑی، سب سے واضح، جلیل القدر اور ثابت شدہ حقیقت بنادیا۔ یہ بھی احتمال ہے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ أَفَسِحْرٌ هٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ ﴾ میں اشارہ اس حق مبین اور صراط مستقیم کی طرف ہو جسے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے کیا کوئی ایسا شخص جو عقل سے بہرہ مند ہے اس کے بارے میں یہ کہنے کا تصور کرسکتا ہے یہ جادو ہے حالانکہ یہ عظیم ترین اور جلیل ترین حق ہے مگر وہ بصیرت سے محروم ہونے کی وجہ سے ایسی باتیں کررہے ہیں۔