ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ
یہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اس لیے کہ بے شک اللہ بندوں پر کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں۔
۔ فرمایا : ﴿ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ ﴾ یہ رسوائیاں اور قباحتیں جو انہیں عذاب کا مستحق بناتی اور ثواب سے محروم کرتی ہیں ان کا اپنا کیا دھرا ہے۔ مفسرین ذکر کرتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ان یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے مذکورہ ہر زہ سرائی کی تھی۔ ان میں ” فنحاص بن عازوراء“ کا نام لیا جاتا ہے جو مدینہ میں علمائے یہود کا سرخیل تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب فنحاص بن عاز وراء نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا ﴾ (البقرہ :2؍ 245) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَأَقْرَضُوا اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا ﴾ (الحدید :57؍18) سنا تو اس وقت اس نے تکبر کی بنا پر یہ بات کہنے کی جسارت کی۔۔۔ قبحہ اللہ اللہ تعالیٰ نے اس کی بدگوئی کا ذکر کرتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ ان کی یہ ہرزہ سرائیاں کوئی نئی چیز نہیں ہیں بلکہ وہ اس سے پہلے بھی اس قسم کے قبیح کام کرتے رہے ہیں ان کی ایک نظیر یہ ہے کہ انہوں نے نبیوں کو ناحق قتل کیا۔۔۔ یہاں ” ناحق“ کی قید لگانے سے مراد یہ ہے کہ وہ نبیوں کو لاعلمی اور ضلالت کی وجہ سے قتل نہیں کرتے تھے بلکہ اس جرم کی قباحت اور شناعت کو جانتے ہوئے بھی سرکشی اور عناد کی بنا پر قتل انبیاء علیہم السلام کے اقدام کی جرأت کرتے تھے۔