مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ، جو مہاجرین و انصار میں سے ہیں، ان کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ وہ کامل ترین صفات اور جلیل ترین احوال کے حامل ہیں اور وہ ﴿ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ ﴾ کفار کے ساتھ بہت سخت ہیں، فتح و نصرت میں جدو جہد اور اس بارے میں پوری کوشش کرنے والے ہیں۔ وہ کفار کے ساتھ صرف درشتی اور سختی سے پیش آتے ہیں۔ اسی لئے ان کے دشمن ان کے سامنے ذلیل ہوگئے، ان کی طاقت ٹوٹ گئی اور مسلمان ان پر غالب آگئے۔ ﴿رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾ یعنی صحابہ آپس میں محبت کرنے والے، ایک دوسرے پر مہربانی کرنے والے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت اور عاطفت کے ساتھ پیش آنے والے ہیں۔ وہ جسد واحد کی مانند ہیں ان میں سے ہر کوئی اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرتا ہے، جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ یہ ہے ان کا مخلوق کے ساتھ معاملہ۔ رہا خالق کے ساتھ ان کا معاملہ، تو ﴿تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا ﴾ ” تم ان کو رکوع اور سجدے کی حالت میں دیکھو گے۔” یعنی ان کا وصف کثرت نماز ہے جس کے جلیل ترین ارکان رکوع اور سجود ہیں ﴿ يَبْتَغُونَ﴾ وہ اس عبادت کے ذریعے سے طلب گار ہیں ﴿ فَضْلًا مِّنَ اللّٰـهِ وَرِضْوَانًا﴾ ” اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا تک پہنچنا اور اس کا ثواب حاصل کرنا ان کا مطلوب و مقصود ہے۔ ﴿سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ﴾ حسن عبادات اور اس کی کثرت نے ان کے چہروں پر اثر کیا ہے حتیٰ کہ وہ منور ہوگئے ہیں، چونکہ نماز کے نور سے ان کے باطن روشن ہیں، لہذا جلال سے ان کے ظاہر منور ہیں ﴿ذٰلِكَ﴾ یہ مذکورہ احوال ﴿مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ﴾ یعنی ان کا یہ وصف جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو موصوف کیا ہے، تو رات کریم میں اسی طرح ذکر کیا گیا ہے۔ انجیل میں ان کو ایک اور وصف سے موصوف کیا گیا ہے کہ وہ اپنے کمال اور باہم تعاون میں ﴿كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ﴾ ” گویا ایک کھیتی ہے جس نے اپنی سوئی نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا۔“ یعنی اس نے اپنی جڑ سے شاخیں نکالیں پھر ان کو استوار و ثبات میں مضبوط کیا۔ ﴿ فَاسْتَغْلَظَ﴾ پس یہ کھیتی طاقت ور اور مضبوط ہوگئی۔ ﴿فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ﴾ ” پھر قوت کے ساتھ کھڑی ہوگئی اپنے تنے پر“ (سُوْق) جمع ہے ساق کی، یعنی اپنی جڑوں پر کھڑی ہوگئی۔ مراد یہ ہے کہ یہ کھیتی مضبوط اور قوی ہوگئی اور اس کے تنے کھڑے ہوگئے۔ ﴿يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ ﴾ جو اپنے کامل طور پر سیدھا کھڑا ہونے اور اپنے حسن اعتدال کی بنا پر کاشتکاروں کو بھلی لگتی ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مخلوق کو نفع پہنچانے اور لوگوں کا ان کی طرف ضرورت مند ہونے کی وجہ سے، کھیتی کی مانند ہیں۔ ان کی قوت ایمان اور قوت عمل پودے کی رگوں اور اس کے تنوں کی مانند ہے۔ وہ کم عمر صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین اور جن کا اسلام متاخر تھا، جنہوں نے بزرگ صحابہ کرام کی پیروی کی، ان کے ہاتھ مضبوط کیے، اقامت دین اور دعوت دین میں ان کی مثال اس کھیتی کی مانند ہے جس نے اپنی جڑوں سے سوئے نکالے، پھر اس کو مضبوط کیا پھر وہ موٹی ہوگئی۔ بنابریں فرمایا : ﴿ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ﴾ ” تاکہ ان کی وجہ سے اللہ کافروں کو چڑائے“ جب کفار ان کے اجتماع اور دشمنان دین پر ان کی سختی کو دیکھتے ہیں نیز جب وہ دست بدست لڑائی اور جنگی معرکوں میں ان کی بہادری کو دیکھتے ہیں، تو یہ چیز ان کے دل کو جلاتی ہے۔ ﴿وَعَدَ اللّٰـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴾ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کو جمع کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مغفرت، جس کا لازمہ دنیا وآخرت میں ہر قسم کے شر سے حفاظت ہے اور دنیا و آخرت کے اندر اجر عظیم کو جمع کیا۔ صلح حدیبیہ کے واقعات ہم صلح حدیبیہ کے واقعات پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں جیسا کہ امام شمس الدین ابن قیم رحمہ اللہ نے ” زاد المعاد“ (زادالمعاد:3؍286۔296)میں بیان کیے ہیں کیونکہ ان واقعات سے اس سورۃ مبارکہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ابن قیم رحمہ اللہ نے اس سورۃ مبارکہ کے اسر اور و معانی پر بھی بحث کی ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا : نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کا واقعہ ذی قعد ٦ ھ میں پیش آیا اور یہی صحیح ہے۔ امام زہری، قتادہ، موسیٰ بن عقبہ اور محمد بن اسحاق رحمہم الله وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ہشام بن عروہ رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رمضان میں حدیبیہ کی طرف روانہ ہوئے اور صلح حدیبیہ کا واقعہ شوال میں پیش آیا مگر یہ وہم ہے رمضان میں تو مکہ فتح ہوا تھا۔ ابو الا سود عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ صلح حدیبیہ ذی قعد میں ہوئی تھی۔ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار عمرے کیے، جو سب کے سب ذی قعد میں تھے۔ ان میں عمرہ حدیبیہ بھی ذکر کیا، آپ کے ساتھ پندرہ سو نفوس تھے۔ صحیحین میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ صحیحین میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ صحیحین ہی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چودہ سو نفوس تھے۔ صحیحین میں عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم تیرہ سو افراد تھے۔ قتادہ رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کتنے لوگوں کی جماعت تھی جو بیعت رضوان میں شریک ہوئی؟ انہوں نے جواب دیا ” پندرہ سو افراد تھے“ میں نے عرض کیا ” حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ وہ چودہ سو افراد تھے“ سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا :” اللہ ان پر رحم فرمائے، انہیں وہم ہوا ہے، انہی نے مجھے بتایا ہے کہ وہ پندرہ سو افراد تھے۔ “ میں(ابن قیم) کہتا ہوں :” حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے دونوں قول صحت کے ساتھ مروی ہیں اور ان سے یہ بھی مروی ہے کہ حدیبیہ والے سال ستر اونٹ قربان کیے، ایک اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیا گیا۔ ان سے پوچھا گیا ” آپ کتنے افراد تھے؟“ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :” سوار اور پیدل دونوں ملا کر چودہ سو نفوس تھے“ یعنی ان کے سوار اور پیادے۔ میلان قلب بھی زیادہ اسی طرف ہے، براء بن عازب، معقل بن یسار اور سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہم سے بھی صحیح تر روایت کے مطابق یہی تعداد ہے اور مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ کا بھی ایک قول یہی ہے۔ شعبہ رحمہ اللہ قتادہ رحمہ اللہ سے، قتادۃ سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ درخت کے نیچے (بیعت کرنے والے) چودہ سو افراد تھے۔ جس نے یہ کہا کہ وہ کل سات سو افراد تھے اس نے واضح طور پر غلطی کی ہے۔ سات سو افراد کہنے والے حضرات کا عذر یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس روز ستر اونٹ ذبح کیے تھے اونٹ کی قربانی کے بارے میں آتا ہے کہ اونٹ کی قربانی سات یا دس افراد کی طرف سے کافی ہے۔ مگر یہ بھی اس قائل کے دعویٰ پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ راوی نے تصریح کی ہے کہ اس غزوہ میں ایک اونٹ سات افراد کی طرف سے ذبح کیا گیا تھا۔ اگر قربانی کے ستر اونٹ سب کی طرف سے ہوتے تو کل چار سونوے افراد ہوتے۔ راوی مکمل حدیث اسی طرح بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ کل چودہ سو نفوس تھے۔ فصل جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذی الحلیفہ پہنچے تو آپ نے قربانیوں کو ہار پہنائے اور علامتیں لگائیں اور عمرے کا احرام باندھا اور اپنے آگے بنو خزاعہ میں سے ایک جاسوس بھیجا جو قریش کے حالات کے بارے میں آگاہ کرے۔ جب آپ عسفان کے قریب پہنچے تو آپ کے جاسوس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا ” میں کعب بن لوی کو اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ انہوں نے آپ کے مقابلے کے لیے، مختلف قبیلوں سے لوگوں کو جمع کر رکھا ہے وہ سب جمع ہو کر آپ سے ضرور لڑیں گے اور بیت اللہ کی زیارت سے آپ کو روکیں گے۔ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ آیا ہم ان قبائل کے پسماندگان پر حملہ کردیں جو قریش کی مدد کے لئے جمع ہوئے ہیں اور ان کو قیدی بنالیں، اگر وہ پھر بیٹھے رہے تو بدلہ لئے بغیر غم زدہ بیٹھے رہیں گے اور اگر وہ بچ نکلے تو وہ ایسی گردن ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے کاٹ دیا ہے۔۔۔ یا تمہارا خیال ہے کہ ہم بیت اللہ کا قصد جاری رکھیں، جو کوئی ہمیں روکنے کی کوشش کرے تو ہم اس سے جنگ کریں؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :” اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، ہم عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں، ہم کسی کے خلاف لڑنے کے لئے نہیں آئے۔ تاہم جو کوئی ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوا ہم اس سے ضرور لڑیں گے۔ “ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” تو پھر کوچ کرو“! پس صحابہ کرام نے کوچ کیا، ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” خالد بن ولید قریش کے گھڑ سواروں کے ساتھ غمیم کے مقام پر پڑاؤ کیے ہوئے ہے اس لئے پہلو بچا کروائیں جانب کا راستہ اختیار کرو“ اللہ کی قسم ! خالد بن ولید کو صحابہ کرام کے نکل جانے کا پتہ تک نہ چلا، یہاں تک مسلمانوں کے لشکر کی گرد ان تک پہنچی تو مسلمانوں کی آمد کا ان کو علم ہوا تو وہ فوراً وقریش کو آگاہ کرنے کے لئے روانہ ہوا۔ اس دوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ آپ اس گھاٹی میں پہنچ گئے۔ جہاں سے ہو کر مکہ کی طرف اترتے ہیں، تو آپ کی سواری بیٹھ گئی۔ صحابہ نے کہا : (حَلْ حَلْ) مگر اونٹنی بیٹھی رہی۔ صحابہ نے کہا : ” قصواء تھک کر بیٹھ گئی“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” قصواء تھک کر نہیں بیٹھی اور نہ یہ اس کی عادت ہے بلکہ اس کو اس ہستی نے روک دیا ہے جس نے ہاتھ کو روکا تھا۔“ پھر فرمایا :” اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ قریش مجھ سے جس چیز کا سوال کریں، جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں کی حرمت کا لحاظ رکھا ہو، میں ان کو وہ چیز ضرور عطا کردوں گا۔“ پھر آپ نے اونٹنی کو جھڑکا، وہ فوراً جست لگا کر اٹھ کھڑی ہوئی، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس گھاٹی سے ایک طرف سے ہٹ کر روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ حدیبیہ کے کنویں کے پاس اتر پڑے جس میں بہت ہی تھوڑا پانی تھا۔ لوگ تھوڑا تھوڑا پانی لیتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے پانی ختم کردیا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پیاس کی شکایت کی۔ آپ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور صحابہ سے کہا، کہ وہ اس تیر کو اس کنویں میں ڈال دیں۔ راوی کہتا ہے: اللہ کی قسم ! اور لشکر اس کنویں سے سیراب ہوتا رہا یہاں تک کہ انہوں نے وہاں سے کوچ کیا۔ قریش آپ کی روانگی کا سن کر بہت گھبرائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کرام میں سے کسی شخص کو ایلچی بنا کر بھیجنا چاہتے تھے چنانچہ آپ نے عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا تاکہ ان کو قریش کی طرف بھیجیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :” یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر مکہ میں مجھے کوئی تکلیف پہنچائی گئی تو بنو کعب بن لوی میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو میری خاطر ناراض ہو، اس لئے آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجئے، وہاں ان کا بہت بڑا قبیلہ ہے اور جو آپ چاہتے ہیں وہ آپ کا پیغام پہنچا دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو سفیر بنا کر قریش کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ قریش کو کہہ دو کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے، ہم تو عمرہ کے لئے آئے ہیں اور انہیں اسلام کی دعوت دو نیز آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ مکہ مکرمہ میں جو مومن مرد اور عورتیں ہیں وہ ان کے پاس بھی جائیں اور ان کو فتح کی خوشخبری دیں۔ نیز ان کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ عنقریب مکہ میں اپنے دین کو غالب کرے گا حتیٰ کہ یہاں ایمان کو چھپایا نہیں جائے گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے، بَلْدَحْ کے مقام پر ان کا گزر قریش کے پاس سے ہوا۔ قریش نے پوچھا ” عثمان ! کہاں کا ارادہ ہے؟“ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا :” مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں اللہ اور اسلام کی طرف دعوت دوں اور ہم تمہیں آگاہ کرتے ہیں کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے بلکہ عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔“ انہوں نے کہا ” تم نے جو کہا، ہم نے سن لیا، اب جاؤ اپنا کام کرو“ ابان بن سعید اٹھا، اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مرحبا کہا، اپنے گھوڑے پر زین رکھی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو گھوڑے پر سوار کرایا اور ان کو پناہ دی، ابان بن سعید حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ بٹھا کر مکہ آیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے واپس لوٹنے سے پہلے مسلمانوں نے کہا :” عثمان رضی اللہ عنہ ہم سے پہلے بیت اللہ پہنچ کر طواف کریں گے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” میرا خیال ہے وہ اس حالت میں کہ ہم یہاں محصور ہیں، بیت اللہ کا طواف نہیں کریں گے۔“ صحابہ نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! وہ بیت اللہ پہنچ گئے ہیں، انہیں کون سی چیز بیت اللہ کے طواف سے روک سکتی ہے؟“ آپ نے فرمایا : ” عثمان کے بارے میں میرا یہ گمان ہے کہ وہ کعبہ کا طواف اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک ان کے ساتھ ہم نہ کریں۔ “ مسلمان صلح کے معاملے میں مشرکین کے ساتھ گھل مل گئے۔ فریقین میں سے کسی شخص نے دوسرے فریق کے کسی آدمی کو پتھرمارا، بس معرکہ برپا ہوگیا فریقین نے ایک دوسرے پر تیر چلانے اور پتھر پھینکنے شروع کردیے دونوں فریق چلائے اور ہر فریق اپنے اپنے آدمیوں کے فعل پر مجبور تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی افواہ پہنچی تو آپ نے بیعت کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درخت کے سائے میں تشریف فرما تھے مسلمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس بات پر بیعت کی کہ وہ آپ کو چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک پکڑا اور فرمایا :” یہ عثمان (رضی اللہ عنہ) کی طرف سے بیعت ہے۔ “ جب عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا :” میرے بارے میں تم نے بہت ہی برا گمان رکھا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر سال بھر بھی میں مکہ مکرمہ میں رہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیبیہ کے مقام پر فروکش ہوں، تو میں اس وقت تک بیت اللہ کا طواف نہیں کروں گا جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طواف نہ کرلیں۔ قریش نے مجھے بیت اللہ کا طواف کرنے کی دعوت دی تھی میں نے انکار کردیا۔“ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا :” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہم سے زیادہ علم رکھتے ہیں اور ہم سے زیادہ اچھا گمان رکھتے ہیں۔ “ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے درخت کے نیچے بیعت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست مبارک تھامے رکھا اور جد بن قیس کے سوا تمام مسلمانوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اور حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ آپ پر سے درخت کی ٹہنیاں اٹھائے رہے۔ ابو سنان اسدی رضی اللہ عنہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، ایک دفعہ ابتدا میں، پھر درمیان میں اور ایک دفعہ آخر میں۔ بیعت کا سلسلہ اسی طرح جاری تھا کہ بدیل بن ورقاء خزاعی بنو خزاعہ کے چند آدمیوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، تہامہ کی پوری وادی میں صرف خزاعی آپ کے خیر خواہ تھے، بدیل نے کہا :” میں بنو کعب بن لؤی اور عامر بن لؤی کو اس حال میں چھوڑ کر آرہا ہوں کہ وہ حدیبیہ کے چشموں پر اترے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ دودھ دینے والی اونٹنیاں بھی ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” ہم کسی کے ساتھ لڑنے کے لئے نہیں آئے، ہم تو صرف عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔ جنگ نے قریش کو کمزور کردیا ہے اور ان کو نقصان پہنچایا ہے، اس صورت میں اگر وہ چاہیں تو میں ایک مدت کے لئے ان کے ساتھ صلح کرلوں گا، وہ میرے اور دوسرے لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں، اگر وہ چاہیں تو اس دین میں داخل ہوجائیں جس میں لوگ داخل ہوئے ہیں، ورنہ آرام سے بیٹھیں اور اگر انہیں جنگ کے سوا کچھ منظور نہیں تو قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری زندگی ہے۔ میں اپنے اس دین پر ان سے ضرور لڑوں گا یہاں تک کہ میری گردن تن سے جدا ہوجائے، یا اللہ تعالیٰ اپنے دین کو نافذ کردے۔ “ بدیل نے عرض کیا :” میں آپ کی بات قریش تک پہنچا دوں گا۔“ بدیل چلا گیا حتیٰ کہ وہ قریش کے پاس پہنچا اور ان سے کہنے لگا :” میں اس شخص کے پاس سے ہو کر آیا ہوں، میں نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو میں وہ بات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ “ قریش کے بیوقوف لوگوں نے کہا :” ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ تم ہمیں کچھ سناؤ“ مگر ان میں سے اصحاب رائے نے کہا :” ہاں بتاؤ تم نے اس سے کیا سنا ہے؟“ بدیل نے کہا :” میں نے اس کو یہ کچھ کہتے سنا ہے۔ “ عروہ بن مسعود ثقفی نے کہا :” اس شخص نے تمہارے سامنے ایک اچھی بات پیش کی ہے، اس کو قبول کرلو اور مجھے اس کے پاس جانے دو“ قریش نے کہا :” ہاں تم اس کے پاس جاؤ۔ “ عروہ بن مسعود ثقفی آپ کے ساتھ مذاکرات کرنے کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عروہ بن مسعود سے بھی وہی بات کہی جو بدیل سے کہی تھی۔ اس پر عروہ بن مسعود نے کہا ” اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا تم قوم ہی کی جڑ کاٹو گے، کیا تم نے کسی عرب کے بارے میں سنا ہے کہ اس نے تم سے پہلے اپنی قوم کو نیست و نابود کیا ہو؟ اگر کوئی دوسری بات ہوئی تو اللہ کی قسم ! میں کچھ ایسے چہرے اور اس طرح کے لوگ دیکھ رہا ہوں جو تجھے چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ “ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا :” تو لات کی شرم گاہ چوستارہ، کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟“ عروہ بن مسعود نے پوچھا :” یہ کون ہے؟“ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا :” میں ابوبکر ہوں۔“ عروہ بن مسعود نے کہا : ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تیرا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا بدلہ میں ابھی تک نہیں اتار سکا تو میں تجھے اس کا جواب دیتا۔ “ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات چیت شروع کی۔ جب وہ بات کرتا تو آپ کی ریش مبارک کو چھوتا، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ آپ کے سر پر کھڑے ہوئے تھے، ان کے ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خود پہن رکھا تھا۔ جب بھی عروہ بن مسعود اپنا ہاتھ آپ کی ریش مبارک کی طرف بڑھاتا، تو مغیرہ رضی اللہ عنہ اپنی تلوار کا نعل اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے :” اپنے ہاتھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک سے دور رکھو۔ “ عروہ بن مسعود نے اپنا سراٹھا کر پوچھا :” یہ کون ہے؟“ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا :” میں مغیرہ بن شعبہ ہوں۔“ عروہ بن مسعود نے کہا :” ے بے وفا شخص ! کیا میں تیری بے وفائی کے انتقام کی کوشش میں نہیں ہوں؟“ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ایام جاہلیت میں کچھ لوگوں کے ساتھ مصاحبت رکھتے تھے، پس مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو قتل کردیا ان کا مال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لے آئے۔ آپ نے فرمایا :” میں تمہارا اسلام لانا تو قبول کرتا ہوں، لیکن مال کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں۔ “ پھر عروہ بن مسعود دیر تک اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا رہا، اللہ کی قسم ! جب کبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تھوک پھینکا تو کسی نہ کسی شخص نے اسے اپنے ہاتھ پر لیا اور اسے اپنے جسم اور چہرے پر مل لیا آپ کوئی حکم دیتے تو صحابہ اس کی تعمیل کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے، جب آپ وضو فرماتے تو صحابہ آپ کے وضو کے مستعمل پانی پر گویا لڑتے تھے، جب آپ گفتگو فرماتے تو صحابہ کرام آپ کے پاس اپنی آوازوں کو پست کرلیتے تھے، آپ کی تعظیم کی وجہ سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔ عروہ بن مسعود اپنے ساتھیوں میں واپس آیا اور ان سے کہنے لگا :” اے لوگو ! میں کسریٰ، قیصر اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں، میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کے مصاحبین اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی تھوک پھینکتے تو کوئی نہ کوئی شخص اپنے ہاتھ پر لے کر اپنے جسم اور چہرے پر مل لیتا تھا۔ جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی حکم دیتے تو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تعمیل کی کوشش کرتے، جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرتے تو وضو کے مستعمل پانی کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے جھگڑتے تھے۔ جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو کرتے تو لوگ اپنی آوازوں کو پست کرلیتے وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کے طور پر ان کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔ بے شک انہوں نے ایک نہایت اچھی بات تمہارے سامنے پیش کی ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ تم اسے قبول کرلو۔ “ بنو کنانہ میں سے ایک شخص نے کہا :” مجھے اس کے پاس جانے دو۔“ قریش نے کہا ” تم اس کے پاس جاؤ۔“ جب یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” یہ فلاں شخص ہے اور اس کا تعلق ایسی قوم سے ہے جو قربانی کے جانوروں کا بہت احترام کرتے ہیں، تم قربانی کے جانور اس کے پاس لے کر آؤ، پس لوگ قربانی کے جانور اس کے پاس لے کر آئے اور تلبیہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ جب اس نے یہ صورت حال دیکھی تو کہنے لگا :” سبحان اللہ ! ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا مناسب نہیں۔“ پھر وہ اپنے لوگوں کی طرف واپس آیا اور ان سے کہا :” میں نے قربانی کے جانوروں کو دیکھا ہے کہ ان کو ہار پہنائے گئے ہیں اور ان کا اشعار کیا گیا ہے میری رائے ہے کہ ان کو بیت اللہ سے نہ روکا جائے۔ “ پھر مکرز بن حفص کھڑا ہوا اور اس نے کہا :” مجھے اجازت دو کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤں“ جب مکرز ان کے پاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” یہ مکرز بن حفص ہے اور یہ فاسق و فاجر شخص ہے۔“ مکرز بن حفص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو شروع کی۔ ابھی وہ گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سہیل بن عمرو آگیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے تمہارا معاملہ آسان فرمادیا۔ “ سہیل بن عمرو نے کہا :” آپ ہمارے اور اپنے درمیان صلح کا معاہدہ لکھ دیجئے“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کاتب کو بلایا اور اس سے فرمایا :” لکھو (بِسْمِ اللہِ الرّحْمٰنِ الرَّحِیْم) “۔ سہیل بن عمرو نے کہا :” رہا رحمٰن، تو اللہ کی قسم ! ہم نہیں جانتے کہ رحمن کیا ہے؟ بلکہ لکھو (بِاِسْمِکََ اللّٰھُمَّ) جیسا کہ تو لکھا کرتا تھا۔ “ مسلمانوں نے کہا :” اللہ کی قسم ! ہم تو ( بِسْمِ اللہِ الرّحْمٰنِ الرَّحِیْم ) ہی لکھیں گے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (بِاِسْمِکََ اللّٰھُمَّ) ہی لکھ دو،، پھر فرمایا :” لکھو، یہ وہ تحریر ہے، جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلح کی۔“ اس پر سہیل بن عمرو نے اعتراض کیا ” اگر ہم اعتراف کرتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو بیت اللہ کی زیارت سے روکتے نہ آپ کے خلاف جنگ کرتے۔ بلکہ ” محمد بن عبد اللہ“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” بے شک میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم نے میری تکذیب کی ہے، تاہم ” محمد بن عبد اللہ۔ “ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” اس بات پر صلح ہے کہ تم بیت اللہ اور ہمارے درمیان سے ہٹ جاؤ گے اور ہم طواف کریں گے۔ “ سہیل بن عمرو نے کہا :” اللہ کی قسم ! ایسا نہیں ہوگا، کہیں عرب یہ نہ کہیں کہ ہمیں مجبور کردیا گیا، البتہ آپ آئندہ سال طواف کریں۔“ پس یہی لکھ دیا گیا۔ سہیل بن عمرو نے کہا :” یہ اس بات پر صلح نامہ ہے کہ اگر ہمارا کوئی شخص (بھاگ کر) تمہارے پاس آجائے تو تم اسے واپس کردو گے خواہ وہ تمہارے دین ہی پر کیوں نہ ہو۔ “ مسلمانوں نے کہا :” سبحان اللہ ! جو شخص مسلمان ہو کر آیا ہو اسے کیسے مشرکین کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا،، ابھی وہ یہ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ ابو جندل بن سہیل رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیوں میں بڑی مشکل سے چلتے ہوئے، نشیب مکہ سے نکلے اور اپنے آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے درمیان ڈال دیا، سہیل بن عمرو نے کہا :” اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ پہلی شرط ہے جس پر میں نے تمہارے ساتھ صلح کی ہے، ابو جندل کو واپس کردو۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ابھی ہم نے تحریر ختم نہیں کی۔“ سہیل بن عمرو نے کہا :”اللہ کی قسم ! اگر یہ بات ہے تو میں تمہارے ساتھ کسی بات پر کبھی بھی صلح نہیں کروں گا۔“ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا :’’مجھے اس کی اجازت دے دو۔ “ سہیل بن عمرو نے کہا :” میں ہرگز اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ “ آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں ! اجازت دے دو۔ “ سہیل بن عمرو نے کہا :” میں اجازت نہیں دوں گا۔ “ مکرز نے کہا :” میں اجازت دیتا ہوں۔ “ ابو جندل رضی اللہ عنہ نے کہا :” اے مسلمانو ! کیا مجھے مشرکین کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا درآنحالیکہ میں مسلمان ہو کر تمہارے پاس آیا ہوں، کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ مجھے کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے؟“۔۔۔ حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ کو اللہ کے راستے میں سخت عذاب سے دو چار کیا گیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں مجھے اسلام کی حقانیت پر، اس دن کے سوا، کبھی شک نہیں ہوا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! کیا آپ اللہ کے نبی نہیں ہیں؟“ آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں !“ میں نے عرض کیا :” کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں؟“ آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں۔ “ میں نے عرض کیا :” میں اللہ کا رسول ہوں، وہی میرا مددگار ہے، میں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” کیا میں نے تمہیں یہ خبر دی تھی کہ تم اسی سال آکر بیت اللہ کا طواف کرو گے؟“ میں نے عرض کیا :” نہیں“۔ آپ نے فرمایا :” تم ضرور بیت اللہ کی زیارت اور طواف کروگے۔ “ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اس کے بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے بھی وہی کچھ کہا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیا تھا اور مزید کہا :” مرتے دم تک ان کے امرو نہی کی اطاعت کی، اللہ کی قسم ! وہ حق پر ہیں“ حضرت عمر فرماتے ہیں :” میں نے اس سوال جواب کی گستاخی کی تلافی کے لئے کفارے کے طور پر بہت اعمال کئے۔ “ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلح نامہ کی تحریر سے فارغ ہوئے تو فرمایا :” اٹھو قربانی کرو اور اپنا سر منڈاؤ۔“ اللہ کی قسم ! کوئی شخص نہ اٹھا حتیٰ کہ آپ نے تین مرتبہ کہا۔ جب ان میں سے کوئی آدمی نہ اٹھا تو آپ اٹھ کرام سلمہ رضی اللہ عنہ کے خیمہ میں چلے گئے، جو کچھ لوگوں کی طرف سے پیش آیا تھا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہہ سنایا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :” یا رسول اللہ ! کیا آپ واقعی یہی چاہتے ہیں؟ اگر یہ بات ہے تو آپ باہر تشریف لے جائیے اور اس وقت تک کسی سے بات نہ کیجئے جب تک کہ آپ اپنی قربانی کو ذبح نہ کرلیں، پھر حجام کو بلائیے اور وہ آپ کا سرمونڈ دے۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور باہر نکل گئے، آپ نے کسی سے گفتگو نہ فرمائی، جب تک کہ یہ سب کچھ نہ کرلیا۔ آپ نے اپنے قربانی کے جانور ذبح کیے پھر حجام کو بلوایا، اس نے آپ کا سر مونڈا۔ جب صحابہ کرام نے یہ دیکھا تو وہ اٹھے اور انہوں نے بھی قربانی کے جانور ذبح کیے اور ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے۔ پھر ازدحام کی وجہ سے ایسے لگتا تھا کہ کہیں وہ ایک دوسرے کو قتل نہ کردیں۔ پھر مومن خواتین آئیں پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللّٰـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ ﴾ (الممتحنة: 60؍10) ” اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں آئیں تو ان کو آزما لیا کرو، ان کے ایمان کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف مت لوٹاؤ۔ وہ ان کفار کے لئے حلال نہ کفار ان کے لئے حلال ہیں اور انہوں نے جو کچھ ان پر خرچ کیا ہے انہیں دے دو، اور تم پر کوئی حرج نہیں اگر تم ان کے ساتھ مہر مقرر کرنے کے بعد نکاح کرلو اور کافر عورتوں کو اپنے پاس نہ رکھو۔ “ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس روز اپنی دو بیویوں کو طلاق دی تھی جو شرک کی حالت میں ان کے پاس تھیں۔ ان میں سے ایک کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے (اس وقت تک وہ ایمان نہیں لائے تھے) اور دوسری کے ساتھ صفوان بن امیہ نے نکاح کرلیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس مدینہ لوٹ آئے، واپسی پر اللہ تعالیٰ نے آپ پر سورۃ فتح نازل فرمائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :” یا رسول اللہ ! کیا یہ فتح ہے؟“ آپ نے فرمایا :” ہاں !“ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! آپ کو مبارک ہو، ہمارے لئے کیا حکم ہے؟“ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ﴿ هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ (الفتح :48؍4)