سورة الفتح - آیت 18

لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بلاشبہ یقیناً اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا، جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، تو اس نے جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر سکینت نازل کردی اور انھیں بدلے میں ایک قریب فتح عطا فرمائی۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل و کرم، اپنی رحمت اور اہل ایمان پر اپنی رضا کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر ایسی بیعت کر رہے تھے جس نے ان کو سرخرو کردیا اور وہ اس بیعت کے ذریعے سے دنیا اور آخرت کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے۔ یہ بیعت جسے اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی وجہ سے ” بیعت رضوان“ کہا جاتا ہے اور سے ” بیعت اہل شجرہ“ بھی کہتے ہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ حدیبیہ کے روز، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے سلسلے میں آپ اور مشرکین مکہ کے درمیان بات چیت شروع ہوئی، کہ آپ کسی کے ساتھ جنگ لڑنے نہیں آئے، بلکہ آپ بیت اللہ کی زیارت اور اس کی تعظیم کے لئے آئے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس سلسلے میں مکہ مکرمہ بھیجا۔ آپ کے پاس ایک غیر مصدقہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مشرکین مکہ نے قتل کردیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھ آئے ہوئے مومنین کو جمع کیا، جو تقریباً پندرہ سو افراد تھے، انہوں نے ایک درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر مشرکین کے خلاف قتال کی بیعت کی کہ وہ مرتے دم تک فرار نہیں ہوں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ مومنوں سے راضی ہوگیا، درآنحالیکہ یہ بیعت سب سے بڑی نیکی اور جلیل ترین ذریعہ تقرب ہے۔ ﴿ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ﴾ ان کے دلوں میں جو ایمان ہے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے ﴿فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ ﴾ تو ان کے دلوں میں جو کچھ ہے، اس کی قدردانی کے لئے ان پر سکینت نازل فرمائی اور ان کی ہدایت میں اضافہ کیا۔ ان شرائط کی وجہ سے، جو مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلح کے لئے عائد کی تھیں، مومنوں کے دلوں میں سخت غم اور بے چینی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر سکنیت نازل فرمائی جس نے ان کو ثبات اور اطمینان عطا کیا۔ ﴿ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا﴾ ” اور انہیں جلد فتح عنایت کی۔“ اس سے مراد فتح خیبر ہے جس میں اہل حدیبیہ کے سوا اور کوئی شریک نہیں ہوا، چنانچہ ان کے لئے جزا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رضا کی تعمیل کی قدرومنزلت کے طور پر ان کو فتح خیبر اور اس کے اموال غنیمت سے مختص کیا گیا۔