وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
اور تو ان لوگوں کو جو اللہ کے راستے میں قتل کردیے گئے، ہرگز مردہ گمان نہ کر، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق دیے جاتے ہیں۔
ان آیات کریمہ میں شہداء کی کرامت اور فضیلت بیان کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا ذکر ہے جن سے شہدا کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و احسان سے نوازا ہے اور اسی ضمن میں ان زندہ لوگوں کے لیے تسلی اور تعزیت ہے جن کے اقرباء نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ نیز ان کو جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب دینا اور ان میں شوق شہادت پیدا کرنا ہے اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ یعنی جو دشمنان دین کے ساتھ اس قصد کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو، قتل ہوگئے ﴿أَمْوَاتًا﴾ ” ان کو مردہ گمان مت کرو“ یعنی ان کے بارے میں تمہارے دل میں اس خیال کا گزر بھی نہ ہو کہ وہ موت سے ہم کنار ہو کر مفقود ہوگئے اور دنیاوی زندگی کی لذات ان سے دور ہوگئیں اور وہ دنیا کی رنگینیوں سے متمتع ہونے سے محروم ہوگئے۔ جن سے محرومی کے خوف اور بزدلی کی وجہ سے جہاد سے گریز کیا جاتا اور شہادت سے بچا جاتا ہے۔﴿بَلْ﴾ بلکہ وہ اس سے بھی بلند مراتب حاصل کرچکے ہیں جن کے حصول کے لیے لوگ بڑھ چڑھ کر کر کوشش کرتے ہیں﴿أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ﴾ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے عزت و تکریم کے گھر میں زندہ ہیں۔ ﴿عِندَ رَبِّهِمْ﴾کا لفظ ان کے بلند درجات اور ان کے رب کے قرب پر دلالت کرتا ہے ﴿يُرْزَقُونَ﴾یعنی ان انواع و اقسام کی نعمتوں سے رزق عطا کیا جاتا ہے جن کے اوصاف کو صرف وہی ہستی جانتی ہے جس نے ان کو یہ نعمتیں عطا کی ہیں ۔