إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ
بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا، پھر اس حال میں مر گئے کہ وہ کافر تھے تو انھیں اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔
یہ آیت کریمہ اور جو سورۃ البقرۃ میں وارد ہوئی ہے یعنی ﴿وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ﴾ (البقرۃ: 2؍217) ” اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرجائے اور کفر کی حالت میں مرجائے، پس ان لوگوں کے اعمال دنیا وآخرت میں اکارت جائیں گے۔“ یہ دونوں آیات ہر اس نص مطلق کو، جس میں کفر کی بنا پر اعمال کے اکارت جانے کا ذکر کیا گیا ہے، مقید کرتی ہیں۔ پس یہ حکم اس پر موت کے ساتھ مقید ہے۔ یہاں فرمایا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ بے شک وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت کا انکار کیا ﴿وَصَدُّوا﴾ اور مخلوق کو روکا ﴿عَن سَبِيلِ اللّٰـهِ﴾ ” اللہ کی راہ سے“ انہیں راہ حق سے دور کرنے، باطل کی طرف دعوت دینے اور باطل کو مزین کرنے کے ذریعے سے ﴿ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ﴾ ” پھر کافر ہی مرگئے۔“ اور انہوں نے کفر سے توبہ نہ کی ﴿فَلَن يَغْفِرَ اللّٰـهُ لَهُمْ﴾ تو اللہ تعالیٰ انہیں کسی سفارش وغیرہ کے ذریعے سے نہ بخشے گا۔ ان کے لئے عذاب واجب ہوچکا، وہ ثواب سے محروم ہوگئے اور جہنم میں ان کا ہمیشہ رہنا لازم ہوگیا ان پر رحیم و غفار کی رحمت کے تمام دروازے بند ہوگئے۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر وہ اپنی موت سے پہلے توبہ کرلیں تو بے شک اللہ تعالیٰ انہیں بخش دے گا، ان پر رحم کرکے جنت میں داخل کردے گا خواہ انہوں نے اپنی عمریں کفر، اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کیوں نہ گزاری ہوں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیے، اس نے کسی شخص پر، جب تک وہ زندہ ہے اور توبہ کرنے پر قادر ہے، اپنی رحمت کے دروازوں کو بند نہیں کیا۔۔۔ اور پاک ہے وہ ذات جو نہایت حلم والی ہے، جو گناہ گاروں کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتی، بلکہ ان کو معاف کرتی ہے اور انہیں رزق عطا کرتی ہے، گویا انہوں نے کبھی اس کی نافرمانی کی ہی نہیں، حالانکہ وہ ہستی ان پر پوری قدرت رکھتی ہے۔