سورة الأحقاف - آیت 35

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۚ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّن نَّهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پس صبر کر جس طرح پختہ ارادے والے رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لیے جلدی کا مطالبہ نہ کر، جس دن وہ اس چیز کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو گویا وہ دن کی ایک گھڑی کے سوا نہیں رہے۔ یہ پہنچا دینا ہے، پھر کیا نافرمان لوگوں کے سوا کوئی اور ہلاک کیا جائے گا ؟

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ﴾ یعنی عذاب کے لئے جلدی مچانے والے اہل تکذیب کے لئے جلدی نہ کیجئے یہ سب ان کی جہالت اور حماقت کے سبب سے ہے، وہ اپنی جہالت کی بنا پر آپ کو ہلکا اور حقیر نہ سمجھیں۔ ان کا جلدی مچانا آپ کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ آپ ان کے لئے بددعا کریں، کیونکہ ہر آنے والی چیز قریب ہوتی ہے۔ ﴿ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا ﴾ ” جس دن یہ اس چیز کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو (خیال کریں گے) گویا وہ نہیں رہے۔“ یعنی دنیا کے اندر ﴿ إِلَّا سَاعَةً مِّن نَّهَارٍ ﴾ ” مگر گھڑی بھر دن کی“ نہایت قلیل مدت کے لئے ان کا متمتع ہونا آپ کو غم زدہ نہ کرے۔ بالآخر انہیں سخت عذاب کا سامنا کرنا ہے۔ ﴿ بَلَاغٌ ﴾ یہ دنیا، اس کی متاع اور اس کی لذات و شہوات، تھوڑے وقت کے لئے ہیں اور ختم ہونے والی ہیں۔ اور یہ قرآن عظیم جو ہم نے پوری طرح تمہارے سامنے بیان کردیا ہے، تمہارے لئے کافی اور آخرت کے لئے زادراہ ہے، کتنا اچھا ہے یہ زاد راہ ! یہ ایسا زاد راہ ہے جو نعمتوں بھری جنت تک پہنچاتا اور درد ناک عذاب سے بچاتا ہے، یہ افضل ترین زادراہ ہے جسے مخلوق اپنے ساتھ لیتی ہے اور یہ جلیل ترین نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا ہے۔ ﴿ فَهَلْ يُهْلَكُ ﴾ ” وہی ہلاک ہوں گے۔“ یعنی عقوبات کے ذریعے سے ﴿ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ ﴾ جن کے اندر کوئی بھلائی نہیں، وہ اپنے رب کی اطاعت کے دائرے سے نکل گئے اور انہوں نے اس حق کو قبول نہ کیا جو ان کے پاس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے تھے، ان کی کوتاہی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کا عذر قبول کیا، ان کو برے انجام سے ڈرایا، مگر وہ اپنے کفر اور تکذیب پر جمے رہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس رویے سے بچائے۔